آذربائیجان: بہشت بر روئے زمیں

ایشیاء اور یورپ کے سنگم پر واقع آذربائیجان کی سرحدیں روس، جارجیا، آرمینیا، ترکی اور ایران سے ملتی ہیں۔ اپنے اس محل وقوع کے باعث دونوں براعظموں کے درمیان ہونے والی تجارت پر اس کی اجارہ داری ہے۔ اس کے مختلف حصوں میں تیل اور پٹرول کے ذخائر موجود ہیں۔ ان علاقوں میں پھٹنے والے آتش فشاؤں سے لاوا کی جگہ پانی، ریت اور پٹرول کا ایک آمیزہ نکلتا ہے جسے ادویات اور کاسمیٹکس کے علاوہ دیگر جگہوں پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ہمسائہ ریاست آرمینیا آذربائیجان کے تقریباً 20 فیصد حصے پر قابض ہے جس کے باعث صرف 40 کلومیٹر چوڑائی کی ایک پٹی اس ملک کے پاس رہ جاتی ہے جہاں سے اس کی تجارت ممکن ہوتی ہے۔ اس کوریڈور کو گنجہ گیپ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہاں سے تین بڑی تیل اور گیس کی پائپ لائنز گزرتی ہیں جو دنیا کے مختلف ممالک تک جاتی ہیں۔

روسی حکومت کی آشیرباد سے آرمینیا ایشیاء اور یورپ کے درمیان تجارت ممکن بنانے والی اس پٹی پر نظریں جمائے رکھتا ہے لیکن مختلف ممالک کی حمایت کے باعث ابھی تک یہ محفوظ ہے۔ ان ممالک میں پاکستان سرفہرست ہے جو ہر موقع پر آذربائیجان کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے۔

یہ خوبصورت ملک ثقافتی حسن اور دلفریب روایات کی بدولت اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے جس کے باعث پوری دنیا سے سیاح یہاں کا سفر کرتے ہیں۔ اس پرسکون سرزمین پر ہر سال بڑی تعداد میں لوگ آتے ہیں اور دلکش یادیں لے کر واپس جاتے ہیں۔ خوراک، روایات اور زبان کے حوالے سے پاکستان اور آذربائیجان کے درمیان بہت سے مماثلتیں بغیر ڈھونڈے نظر آتی ہیں۔ اردو کے کئی الفاظ یہاں کی زبان میں موجود ہیں۔

یہاں کی ثقافت موسیقی، ادب، مقامی رقص، فن اور فن تعمیر میں اہم مقام رکھتی ہے۔ ہاتھ سے بنے ہوئے قالین پوری دنیا میں پسند کئے جاتے ہیں۔ آذربائیجان کی ثقافت میں مشرق اور مغرب کا خوبصورت ملاپ دکھائی دیتا ہے۔ دارالحکومت باکو میں قائم حکومتی ہال اور ملی مجلس (پارلیمنٹ) فن تعمیر کے دلکش نمونے ہیں۔

یہاں کی 97۔4 فیصد آبادی اہل تشیع پر مشتمل ہے اور اسلامی تہذیب سے گہرا ناطہ قائم رکھتی ہے۔ یہاں ایک غار موجود ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اصحاب کہف نے اس میں طویل نیند کی تھی، اسی طرح حضرت نوح علیہ السلام کا مقبرہ مبارک بھی آذربائیجان میں موجود ہے۔ یہ دونوں مقامات سیاحوں کی خصوصی توجہ کا مرکز رہتے ہیں۔

 

ٹاپ اسٹوریز