نعمت اللہ خان بھی رخصت ہوئے

ہہ بات ہے نعمت اللہ خان صاحب کے دور نظامت کی! مجھے سنڈے میگزین کیلئے ان کا ایک فیملی انٹرویو کرنا تھا،  بڑی دوڑدھوپ کے بعد وہ اپنے گھر میں میرے لیے وقت نکال سکے ۔ ان کے دیے گئے پتے پر پہنچنے کے بعد میں بہت دیر اس تذبذب میں مبتلا رہی کہ آیا یہی ناظم شہر کا گھر ہے جہاں کسی بھی قسم کے کوئی حفاظتی اقدامات نظر نہیں آرہے اور نہ ہی بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی ہوئی ہیں۔ بہرکیف ناظم صاحب نے نہایت عزت سے اپنے ڈرائننگ روم میں بٹھایا اور ہم نے اپنا طویل انٹرویو مکمل کیا ۔ دوران انٹرویو بھی مجھے اس گھر اور اس انسان کی سادگی و انکساری نے بے حد متاثر کیا اور جب میں ان کا انٹرویو تیار کرنے بیٹھی تو میرے لکھے پر ان کے مزاج کی گہری چھاپ تھی۔

نعمت اللہ خان کراچی والوں کیلئے ایک انتہائی معتبر اور عزیز نام تھے۔ آج صبح ہی ان کے اس جہان فانی سے کوچ کرنے کی خبر ملی، کون ایسا نہیں ہے جو اس ضمن میں بات نہ کر رہا ہو کیوں کہ درحقیقت یہی وہ ہستی ہیں جنہوں نے پیرانہ سالی کے باوجود اپنے دور نظامت میں کراچی کیلئے ایسے کارنامے سرانجام دیے جن کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ ان کے کارہائے نمایاں پر بات کرنے سے قبل کچھ ان کی زندگی کے حوالے سے بات کرتے چلیں۔

وہ کامیاب وکیل، متحرک فلاحی و سماجی ہستی اور ایک بے مثال انسان تھے۔ انہوں نے ضلعی نظامت کے دوران اپنے لوگوں کی ایسی لازوال خدمات سرانجام دیں کہ لوگوں نے انہیں ”بابائے کراچی“ کہنا شروع کردیا۔ آپ یکم اکتوبر1930ء کو مشہور مسلم بزرگ خواجہ معین الدین اجمیری کی نگری اجمیر شریف کے علاقے شاہجہاں پور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم شاہجہاں پور اور اجمیر سے ہی حاصل کی۔ آپ کے خاندان نے1948ء میں شاہجہاں پور سے پاکستان کی طرف ہجرت کی اور کراچی میں آ بسا۔ کراچی آمد کے بعد ابتدائی دنوں میں آپ کے اہل خانہ کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے کئی سال تک ایک کمرے کے مکان میں زندگی گزارنا پڑی۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول اور خاندان کی بقا کے لیے آپ نے سخت جدوجہد کی اور جز وقتی ملازمت کے علاوہ بچوں کو پڑھا کر زندگی کی گاڑی کھینچتے رہے۔

پاکستان ہجرت کے بعد آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کیا جبکہ فارسی ادب میں ماسٹر ڈگری کراچی یونیورسٹی سے حاصل کی۔ کراچی یونیورسٹی سے ہی آپ نے صحافت میں ڈپلومے کے علاوہ ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا۔ بعد ازاں انکم ٹیکس وکیل کے طور پر وکالت کا آغاز کیا اور تب سے ایک کامیاب وکیل اور انکم ٹیکس معاملات کے ماہر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں محض 15 سال کی عمر میں آپ نے تحریک پاکستان میں ایک فعال کارکن کے طور پر کام کیا۔ اسی زمانے میں آپ نے شاہجہاں پور کے مسلم رکن قانون سازاسمبلی کے ہمراہ قائد اعظم کی سربراہی میں ہونے والی “آل انڈیا مسلم لیجسلیٹرز کانفرنس” میں شرکت کی۔ 1946ء سے قیام پاکستان تک آپ مسلم لیگ نیشنل گارڈ ضلع اجمیر کے منتخب صدر رہے۔

تحریک پاکستان کے دوران آپ نے1957ء میں جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کی اور پیرانہ سالی کے باوجود اس خواب کی تعبیر کے حصول کے لیے سر دھڑکی بازی لگا دی۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ آپ نے جماعت کی رکنیت کا حلف خانہ کعبہ میں اٹھایا، حلف لینے والے پروفیسر غفور احمد تھے۔ آپ کراچی جماعت کے نائب امیر اور ایک عرصہ تک امیر رہے، نائب امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ بھی رہے۔ 1985ء کے غیر جماعتی الیکشن میں سندھ اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور اپوزیشن ارکان نے اسمبلی میں ”اپوزیشن لیڈر“ کیلئے آپ پر اعتماد کا اظہار کیا۔1988ء میں اسمبلی کی تحلیل تک تقریباً ساڑھے تین سال اپوزیشن لیڈر کے منصب پر فائز رہے۔ اس دوران آپ نے کراچی اور سندھ کے عوام کی ترجمانی حق ادا کیا اور بھرپور انداز میں عوامی مسائل اسمبلی میں اٹھائے۔

2001 ءمیں متعارف کرائے جانے والے ضلعی حکومتوں کے نظام کے بعد نعمت اللہ خان کراچی کے پہلے ناظم منتخب ہوئے اورشدید مخالفتوں کے باوجود 4 سال کے مختصر عرصے میں کراچی کی شکل یکسر بدل کے رکھ دی اورکراچی کی خدمت اور اس کے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے کسی کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔ تباہ حال شہری انفراسٹرکچر، ٹریفک اور سیوریج کے ابتر نظام کو شاندار حکمت عملی اور تیز رفتاری سے بہتری کی جانب گامزن کیا۔ نعمت اللہ خان نے اربوں روپے کی لاگت سے بڑی شاہراہوں کو تعمیر کرایا، کروڑوں روپے کی لاگت سے چورنگیوں کی تزئین و آرائش کے بعد ان کو سگنلائزڈ کیا اور شہر میں سڑکوں، فلائی اوورز، انڈر پاسز اور پلوں کا جال بچھا دیا، ان شاہراہوں، چوراہوں اور گلیوں میں روشنی کا بہترین انتظام کر کے آپ نے ایک مرتبہ پھر کراچی کو ”روشنیوں کا شہر“ بنا دیا۔

انہوں نے ٹرانسپورٹ کا نظام بہتر بنانے کے لیے ”اربن ٹرانسپورٹ اسکیم“ اسکیم شروع کی اور پہلی دفعہ 500 بڑی، کشادہ اور ائیر کنڈیشنڈ بسیں کراچی کی سڑکوں پر رواں دواں نظر آئیں۔ پیدل چلنے والوں کے لیے درجنوں پلوں کی تنصیب کے علاوہ ڈرائیوروں کی تربیت کے لیے ڈرائیور اکیڈمی کا قیام عمل میں لایا گیا جبکہ 470 مقامات پر خوبصورت بس شیلٹرز تعمیر کیے گئے۔ اسی طرح ماس ٹرانزٹ کے لیے ایک غیر ملکی کمپنی سے معاہدہ کیا گیا جس کے تحت 87 کلومیٹر طویل مقناطیسی ریل چلائی جائے گی، جبکہ شہر میں سرکلر ریلوے کی بحالی کے ساتھ ساتھ اورنگی، بلدیہ، کورنگی اور نارتھ کراچی تک اس کی توسیع کا منصوبہ منظور کرایا۔ شہر کے انفراسٹرکچر میں تبدیلی، خصوصاً، ٹرانسپورٹ کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا اثر ان کے بعد نظر آیا۔

نعمت اللہ خان نے اپنے پہلے ہی بجٹ میں تعلیم کی مد میں ریکارڈ 31 فیصد رقم مختص کی، آج کراچی کے اسکولوں کی بدلی ہوئی حالت انہی کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔ اسکولوں میں سہولیات کی فراہمی، اساتذہ کے مختلف جدید ٹریننگ کورسز اور ”پروفیشنل ٹریننگ پروگرام“ میں ہزاروں اساتذہ کی تربیت کا سلسلہ شروع کرایا۔ آپ کے ناظم بننے سے قبل شہر میں 88 کالجز تھے، آپ نے 4 سال کی مختصر مدت میں ریکارڈ32 نئے کالجوں کا اضافہ کیا ۔ تعلیمی اداروں میں سیلف فنانس اسکیم کا خاتمہ، مرکزی داخلہ پالیسی کے نظام کا اجراء اور میرٹ پر داخلے کو یقینی بنایا۔

سرکاری اسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ آپ نے 10 چیسٹ پین سینٹرز، امراض قلب کے جدید ترین اسپتال کا قیام، کڈنی ڈائلائسسز سینٹر، ناظم شہر کے کیمپ آفس میں جدید ترین ”ڈائیگنوسٹک سنٹر“ بھی آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ انہوں نے ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والی بھاری صنعتوں کی شہر سے باہر منتقلی کی بھرپور مہم چلائی اور ملک بھر میں پہلی دفعہ سی این جی پر چلنے والی بسوں کو متعارف کرایا۔ آپ نے اپنے دور میں 300 پارکس کو ازسر نو تعمیر کرایا، 300 پلے گراؤنڈز کی حالت بہتر کرائی، بے شمار فلڈ لائٹس کی تنصیب کرائی جبکہ کراچی کے 18 ٹاونز میں سے ہر ٹاؤن کو کم از کم ایک ماڈل پارک بنا کر دیا۔ اسی طرح دامن کوہ، باغ ابن قاسم اور گٹر باغیچہ پارکس جیسے میگا پروجیکٹس کا آغاز بھی آپ کے دور میں ہوا۔ سفاری پارک میں پاکستان کا سب سے بڑا سفاری ایریا ہے جو مناسب اقدامات نہ ہونے کے سبب35 سال سے بند تھا،آپ نے اس پر کام شروع کیا۔

پانی کی کمی پوری کرنے کے لیے آپ نے ”کے تھری واٹر سپلائی پروجیکٹ“ شروع کیا ،واٹر ڈی سیلینیشن پلانٹ کی تنصیب اور سیوریج کے پانی کو ری سائیکل کر کے کارخانوں کے لیے قابل استعمال بنانے کے معاہدے کئے۔ سیوریج کے نظام کی بہتری کے لیے اربوں روپے خرچ کیے۔ 50 سالہ پرانی پائپ لائنوں کی بڑے پیمانے پر تبدیلی اور نئے پمپس کی تنصیب کرائی۔ کوڑا کرکٹ اور کچرا اٹھانے کے لیے500 سولڈ ویسٹ ٹرانسفر اسٹیشن تعمیر کیے۔ نعمت اللہ خان کراچی کی کچی آبادیوں کو شہر کے ماتھے کا جھومر کہتے ہیں۔ انہوں نے شہر کی 52 فیصد آبادی پر مشتمل خاندانوں کو لیز پر زمین فراہم کی۔ 1999ء میں بڑھائے جانے والے لیز کے نرخ منسوخ کر کے1989ء کے نرخ بحال کیے جس سے لاکھوں غریب لوگوں کو براہ راست فائدہ پہنچا۔ اسی طرح اپنے صوابدیدی فنڈ سے ضرورتمند اور بےروزگار افراد میں سوا کروڑ روپے کی سلائی مشینیں، سائیکلیں، جہیز بکس اور دیگر سامان تقسیم کیا۔ نعمت اللہ خان نے علم و ادب کے فروغ، دینی معلومات میں اضافے اور اسلامی فن و ثقافت کی ترویج اور کھیلوں کی ترقی کے لیے بھی مختلف عملی اقدامات کیے۔ فکر ملی ٹرسٹ، قرآن و سنہ اکیڈمی، المرکز الاسلامی، سیٹیزن کمیونٹی بورڈ، تھانوں میں لائبریریوں کا قیام، پبلک مقامات پر ائیرکنڈیشنڈ لائبریریوں کی تعمیر، ویمن اسپورٹس کمپلیکس اور ویمن لائبریری کمپلیکس کی تکمیل اور مختلف اسلامی، اصلاحی اور سماجی پروگراموں کا انعقاد آپ کی بہترین کاوشوں کے طور پر یاد رکھے جائیں گے۔ کراچی میں پہلی بار سٹی گیمز کا انعقاد بھی آپ کا ایک کارنامہ ہے۔ نعمت اللہ خان نے اپنی انتھک محنت اور کوششوں کے بعد شہری حکومت کے بجٹ میں حیران کن حد تک اضافہ کیا اور اسے 5 ارب سے 43 ارب تک لے گئے۔ 29ارب کا ”تعمیر کراچی پروگرام“ بھی آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

نعمت اللہ خان کے مخالفین بھی ان کے اخلاص اور امانت داری کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ آپ نے دیانت کی مثال قائم کی اور کرپشن کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ ناظم کراچی کی حیثیت سے آپ نے ہفتے میں ایک دن عوامی رابطے کے لیے مختص کیا۔ اس دوران ساٹھ ہزار سے زائد عوامی مشکلات و مسائل کو حل کیا۔ کسی بھی ناگہانی آفت و مصیبت کے وقت نعمت اللہ خان ہمیشہ متاثرین کی مدد کے لیے سب سے پہلے پہنچتے تھے۔ 1996کا دادو میں سیلاب ہو یا 1997کا تھرپارکر کا قحط نعمت اللہ خان ہر جگہ پیش پیش نظر آتے تھے۔

اپنے دور نظامت میں بھی وہ22 ،22 گھنٹے کام کیا کرتے تھے جس کی اس عمر کے کسی انسان سے توقع نہیں کی جاسکتی لیکن خدمت خلق کے جذبے سے سرشار نعمت اللہ خان نے ہمیشہ اپنی ذات سے بڑھ کر سوچا۔ نعمت اللہ خان بلاشبہ کراچی کے سب سے بہترین اور کامیاب ترین مئیر تھے۔ آپ نے بر وقت عوامی مسائل کے حل، سہولیات کی تیز رفتار فراہمی، بے مثال ترقیاتی کاموں اور امانت کا جو معیار قائم کیا، وہ کراچی کے عوام میں ایک ”رول ماڈل“ کی حیثیت اختیار کر گیا ہے، اور اب وہ ہمیشہ نئے آنے والے ناظمین کی صلاحیتوں کا نعمت اللہ خان کی کامیابیوں کے ساتھ موازنہ کریں گے۔ کافی عرصے تک علیل رہے اور آج صبح وہ ہمیں تنہا چھوڑ گئے صاحبزادے اور صاحبزادی کی بیرون ملک سے آمد کے بعد ان کی نماز جنازہ کل بعد نماز ظہر نیو ایم اے جناح روڈ نزد ادارہ نورحق پر ادا کی جائے گی۔ ان کے انتقال کے بعد مخلصی، محنت ، جدوجہد اور ایمانداری کا ایک قابل تقلید باب ختم ہوا۔

ٹاپ اسٹوریز