کورونا وائرس کیا ہے؟

اسلام آباد: کورونا ٹیسٹنگ کٹس درآمد کرنے کا فیصلہ

معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے تصدیق کر دی کہ دنیا بھر میں تباہی مچانے والا کورونا وائرس پاکستان پہنچ گیا ہے اور ایران سے کراچی اور اسلام آباد پہنچنے والے 2 افراد میں اس وائرس کی تصدیق بھی ہوگئی ہے۔ اس بیان کے بعد ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور بطور احتیاط سندھ بھر میں دو دن کے لیے جبکہ بلوچستان میں 15 مارچ تک تعلیمی ادارے بند کردیے گئے۔ گو کہ محکمہ صحت سندھ کے ترجمان میران یوسف نے تسلی دی ہے کہ صوبائی حکومت اور کراچی کے اسپتالوں میں کورونا وائرس کے علاج کی سہولیات اور ادویات موجود ہیں لہٰذا گھبرانے کی ضرورت نہیں تاہم حکومتی سطح پر خواہ کچھ بھی کہا جائے، درحقیقت اس خبر کے سامنے آتے ہی ہر شخص پریشانی میں مبتلا ہوگیا ہے اور جاننا چاہتا ہے کہ 17فروری کو ایران سے کراچی پہنچنے والے یحیٰ جعفری کو کراچی ایئرپورٹ پر موجود تمام انتظامات کے باوجود کلیئر کیسے قرار دے دیا گیا۔ اگر اس کے ٹیسٹ ہوئے تھے تو وہ کلیئر کیسے قرار دیا گیا اور اگر نہیں ہوئے تھے تو ٹیسٹ نہ کئے جانے کی کیا وجہ ہے جبکہ اس ضمن میں ایمرجنسی کافی عرصہ قبل لگائی گئی تھی۔

یحی جعفری کے متاثر ہونے کی حقیقت اس وقت سامنے آئی جب اس نے ازخود رضاکارانہ طور پر کراچی کے ایک نجی اسپتال سے اپنے ٹیسٹ کرائے۔ گزشتہ روز وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں یہ بھی بتایا کہ ایران سے آنے والے 1500 افراد کی شناخت ہوگئی ہے جن کی 15 دن تک نگرانی کی جائے گی۔ انہوں نے ایک اسپتال کورونا وائرس کے متاثرین کے لیے مختص کرنے کا عندیہ دینے کےساتھ یہ بھی کہا کہ ہماری تجاویز میں شامل ہے کہ ایران سے فلائٹ آپریشن بھی معطل کیا جائے۔ اسے ان کی جانب سے اس بات کا اعتراف بھی سمجھنا چاہیئے کہ ایئرپورٹس پر کی جانے والی اسکریننگ کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

چلیں بات کرتے ہیں کہ کرونا وائرس ہے کیا، اس کی علامات کیسے ظاہر ہوتی ہیں اور اس حوالے سے کیا احتیاط کی جانی چاہئیں؟ اس ضمن میں ہم نے گزشتہ دنوں مائیکرو بیالوجی میں پی ایچ ڈی کی سند یافتہ ڈاکٹر صدف اکبر سے بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ کرونا وائرس نامی بیماری میں متاثرہ فرد نزلہ‘ کھانسی اور سانس کی تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس وائرس کی بہت سی اقسام ہیں لیکن ان میں سے چھ اور اس حالیہ وائرس کو ملا کر سات ایسی اقسام ہیں جو انسانوں کو متاثر کرتی ہیں۔ 2002 ء میں چین میں کورونا وائرس کی وجہ سے 774 افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ مجموعی طور پر 8098 افراد متاثر ہوئے تھے۔ کورونا وائرس کے جینیاتی کوڈ کی تحقیق کے مطابق یہ ریسپائریڑی سنڈروم (سارس) سے ملتا جلتا وائرس ہے اور اس کی بیماری کی علامات بھی مشابہت رکھتی ہیں ۔

کرونا وائرس کا آغاز جانوروں سے ہوا بعد ازاں یہ بیماری انسانوں میں منتقل ہو گئی جو ایک متاثرہ فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہو سکتی ہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ افراد میں بیماری زکام کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، پھر ناک بہنا، کھانسی، گلے کی تکلیف، سردرد اور بخار جیسی کیفیات پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس وائرس کے انفیکشن ہونے سے علامات ظاہر ہونے میں کچھ دن لگتے ہیں اس لیے متاثرہ فرد میں کچھ دن بعد ہی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ وائرس جن لوگوں پر آسانی سے حملہ کرسکتا ہے ان میں دل کے امراض میں مبتلا افراد، کمزور مدافعاتی نظام والے افراد، خاص طور پر چھوٹے بچے اور بڑی عمر کے افراد شامل ہوتے ہیں۔ ایسے افراد میں سانس کے مختلف مسائل کےساتھ ساتھ نمونیا میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔

کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری ہلکی سے لے کر بہت سنگین بھی ہو سکتی ہے جس کا انحصار مختلف عوامل پر ہوتا ہے جس میں مریض کی عمر، مریض کی حالت اور کچھ مخصوص بیماریوں پر مشتمل افراد سنگین پیچیدگیوں سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ وائرس شدت اختیار کر لے تو نمونیہ، پھیپھڑوں میں انفیکشن، سانس لینے میں تکلیف اور پھر سانس رک جانے کی وجہ سے مریض کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ کوروناوائرس ایک سے دوسرے فرد تک تنفسی نظام، کھانسی، چھینکنے اور تھوکنے کے ذریعے پھیلتا ہے۔ اگر متاثرہ فرد دوسرے فرد کو گندے ہاتھوں سے چھولے تو بھی یہ وائرس منتقل ہو جاتے ہیں جبکہ متاثرہ شخص کے دروازے کی نوب، موبائل فون، لفٹ، کمپیوٹر، کی بورڈ، مشترکہ تولیہ اور استعمال کی مختلف اشیاء میں وائرس منتقل ہوجاتے ہیں اور وہاں سے دوسروں تک پہنچتے ہیں۔

تادم تحریر کورونا وائرس کی کوئی ویکسین یا علاج دریافت نہیں ہوسکا، زیادہ تر افراد جن میں اس وائرس سے سنگین صورتحال پیدا نہیں ہوتی، میں اس کی علامات از خود ختم ہو جاتی ہیں جبکہ درد یا بخار پر قابو پانے کیلئے مختلف درد کش ادویات ڈاکٹر کے مشورے کے بعد استعمال کی جاسکتی ہیں، علاوہ ازیں متاثرہ فرد کوزیادہ آرام کےساتھ پانی اور تازہ مشروبات کا استعمال کرنا چاہئے۔ جسم میں قوت مزاحمت کو بڑھانے کےلئے تازہ، صحت بخش اور متوازن غذائیں کھانی چاہئیں۔ دن میں سات تا آٹھ گھنٹے کی لازمی نیند لیں، ماسک کا استعمال کریں، اپنے منہ، ناک یا آنکھوں کو چھونے کے بعد ہاتھوں کو صابن اور نیم گرم پانی سے بار بار دھونا چاہئے۔ بیماری کے دوران دوسرے افراد سے روابط میں حتیٰ الامکان گریز کریں، ذاتی استعمال کی اشیاء کو خود تک محدود رکھیں۔ وائرس کے نتیجے میں ہونے والی بیماریوں میں اینٹی بائیوٹکس موثر نہیں ہوتے اس لیے کورونا وائرس کے خدشے میں بھی اینٹی بائیوٹکس استعمال نہ کریں اور فوری طور پر مستند ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

مریض کے ساتھ گھر کے تمام افراد، تیمار دار اور علاج کرنے والے پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹرز کو بھی باقاعدہ دستانوں، ماسک اور ایپرن کا استعمال کرنا چاہئے۔ مریض کی دیکھ بھال کے وقت منہ پر ماسک اور ہاتھوں پر دستانے ضرور پہنیں اور مریض کے کھانسی، چھینک اور تھوک کے ذرات سے حتی الامکان دُور رہیں ۔ مارکیٹ میں ایسے ماسک بھی دستیاب ہیں جن کی مدد سے وائرس کے چھینک یا کھانسی وغیرہ کے ذریعے دوسرے شخص میں منتقلی کو روکا جا سکتا ہے۔ پرہجوم مقامات پر جانے کے بعد ہاتھوں کو لازمی طور پر صابن سے دھوئیں۔ گوشت اور انڈے پکاتے ہوئے درست درجہ حرارت اور مناسب وقت اور طریقے کو یقینی بنائیں تاکہ جانورں سے اس وائرس کی منتقلی کے عمل کا سدباب کیا جا سکے۔

کورونا وائرس سے صحتمند شخص بڑی حد تک محفوظ رہتا ہے تاہم یہ وائرس کمزور پھیپھڑوں کے مالک یا کم قوت مدافعت والے افراد کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ سگریٹ نوشی کرنے والوں کو کورونا وائرس متاثر کر سکتا ہے، صحتمند افراد کو ماسک پہننے کی ضرورت نہیں ہے، حفاظتی تدابیر کے تحت پانی کا استعمال زیادہ کریں۔ اس مرض سے متاثرہ جن افراد کی عمر 40 سے کم ہو ان کی اموات کی شرح تقریباًٍ صفر ہے۔

کورونا کے مریض کو ذہنی پریشانی اور تناﺅ سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ اس سے جسم میں موجود قوت مدافعت میں کمی آ جاتی ہے تاہم غیرمعمولی صورتحال میں دباو ‘ ابہام یا خوف کا شکار ہو جاناعام بات ہے۔ ایسی کیفیت میں قابل بھروسہ لوگوں سے گفتگو کریں، صحتمند طرز زندگی پر عمل کریں یعنی مناسب غذا اوراچھی نیند لیں اور ورزش کریں‘ زیادہ ذہنی دباؤ محسوس کریں تو ہیلتھ کونسلر سے رابطہ کرکے اپنے لیے منصوبہ بنوائیں اور اس پر عمل کریں۔ حقائق جمع کریں، تازہ ترین معلومات سے باخبر رہیں تاکہ ضروری احتیاط کر سکیں۔

ذہنی دباﺅ کی صورت میں بچے اپنا ردعمل مختلف صورتوں میں دیتے ہیں مثال کے طور پر غصہ کرنا، سہم جانا، بستر گیلا کرنا اور چڑچڑے پن جیسی علامات پر نظر رکھیں، ایسی صورت میں انہیں باور کرائیں کہ آپ ہر قیمت پر ان کے ساتھ ہیں۔

پکے ہوئے اور ان پکے کھانوں، گوشت وغیرہ کیلئے الگ کٹنگ بورڈز اور چھریاں استعمال کریں۔ بیمار جانوروں کے گوشت کے استعمال سے بچیں۔ کورونا وائرس سے متاثرہ علاقوں میں گوشت کو اچھے طریقے سے پکا کر استعمال کریں۔عالمی ادارہ صحت نے متاثرہ علاقوں میں خریداری مراکز اور کام کی جگہوں پر جانے والے افراد کیلئے بھی ہدایات جاری کی ہیں۔ ایسے لوگوں سے کہا گیا ہے کہ وہ جانوروں یا ان سے متعلق مصنوعات کو چھونے کے بعد صابن سے ہاتھ لازما دھوئیں۔ آنکھ، ناک اور منہ چھونے سے بچیں۔ بیمار جانوروں یا غیرصحت مند نظر آنے والے گوشت سے دور رہیں۔ مارکیٹوں میں آوارہ جانوروں، کچرے اور فضلے سے دور رہیں۔ جانوروں یا ان کی مصنوعات کو استعمال کرتے وقت ہاتھوں پر دستانے پہنیں۔ کام کی جگہ کا لباس صاف ستھرا رکھیں، روزانہ دھوئیں اور وہیں چھوڑیں۔ اہلخانہ کو کام کی جگہ پر پہنے جانے والے لباس، یونیفارم سے دُور رکھیں۔ کام کی جگہ کو کم ازکم دن میں ایک بار جراثیم کش مائع سے صاف کریں۔

کروناوائرس کا علاج نہ ہونے، اس کی ابتدائی علامات واضح نہ ہونے اور تشخیص دیر سے ہونے نے عام افراد کو پریشانی کا شکار کیا تاہم طبی افراد و ادارے غیرضروری دباؤ اور خوف سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ قبل ازیں سامنے آنے والی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ کورونا کے علاج کیلئے دو مختلف ادویات کی آزمائش کا عمل بھی جاری ہے، ماہرین کو توقع ہے کہ رواں برس کے اختتام تک ویکسین یا دوا کی صورت حتمی علاج دریافت کیا جا سکے گا اس وقت تک احتیاط، احتیاط اور صرف احتیاط سے کام لیں۔

ٹاپ اسٹوریز