لال مسجد کا تنازع

ہم شہید ہو جائیں گے لیكن ہار نہیں مانیں گے۔ یہ الفاظ ٹائم میگزین كی ویب سایٹ پر QUOTE OF THE DAY كے طور پر چھ اگست سنہ دو ہزار سات كو جمعہ كے دن شایع ہوئے۔ جس شخص كے یہ الفاظ تھے، اسے دنیا مولانا عبدالرشید غازی كے نام سے جانتی ہے۔ پاكستان كے دارالحكومت اسلام آباد میں واقع لال مسجد كے نائب امام۔

1965 میں لال مسجد كی تعمیر كے بعد اس كے پہلے امام و خطیب كے طور پر جس شخص كو تعینات كیا گیا، ان كا نام تھا مولانا محمد عبداللہ غازی۔ عبداللہ غازی كی ایك وجہ شہرت تو پاكستان میں ان كے قائم كیے ہوئے كئی مدرسے ہیں جن میں لال مسجد سے متصل خواتین كے لیے قائم كیا جانے والا خاص مدرسہ جامعہ حفصہ بھی شامل ہے۔
مولانا عبداللہ غازی كی دوسری وجہ شہرت ان كی حكومتوں پر كڑی تنقید تھی۔ پاكستان كا ہر حكمران ان كی تنقید كا نشانہ بنا سوائے جنرل ضیا الحق كے۔ جنرل ضیا الحق سے مولانا عبداللہ غازی كی خاص دوستی تھی۔ اور اسی وجہ سے مولانا  اور لال مسجد كا كردار افغان جہاد كے دوران اس وقت ابھر كر سامنے آیا جب انہوں نے اس جہاد میں حصہ لینے كے لیے جوانوں كی تربیت كرنا شروع كی اور انہیں اس لڑائی میں حصہ لینے كے لیے افغانستان بھیجنا شروع كیا۔

اپنے قتل سے چند ماہ پہلے مولانا عبداللہ نے خود بھی ایك وفد كے ساتھ افغانستان كا دورہ كیا اور وہاں ملا عمر، اسامہ بن لادن اور ڈاكٹر ایمن الزواہری سے خصوصی ملاقاتیں كی۔ اس وفد میں مولانا عبداللہ كا جوان بیٹا عبد الرشید غازی بھی موجود تھا جسے مولانا خاص طور پر اس دورے پر لے كر گئے تھے۔

اكتوبر 1998 میں مولانا عبداللہ غازی پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ اس حملے كے وقت ان كا بڑا بیٹا عبدالعزیز غازی ان كے ساتھ تھا۔ اس حملے میں مولانا عبداللہ غازی تو جانبر نہ ہو سكے مگر عبدالعزیز غازی كی زندگی ابھی باقی تھی۔ مولانا عبداللہ كے چھوٹے بیٹے نے اپنے بڑے بھائی كے منع كرنے كے باوجود والد كے قتل كی ایف آئی آر درج كرائی اور پولیس پر قاتلوں كی گرفتاری كے لیے زور ڈالا۔ مگر نتیجہ وہی ہوا جو بڑے بھائی عبدالعزیز كا ماننا تھا۔ ملك میں ہونے والی ہزاروں ہلاكتوں كی طرح اس ہلاكت كا بھی كوئی ذمہ دار قانون كی گرفت میں نہ آیا۔

والد كی وفات كے بعد عبدالعزیز غازی نے امام اور عبد الرشید غازی نائب امام كے طور پر لال مسجد كا انتظام سنبھالا۔ خواتین كا مدرسہ جامعہ حفصہ بھی انہی كے كنٹرول میں تھا۔ 2006 تك كسی كو خاص اندازہ نہ تھا کہ یہ دونوں بھائی كیا كر رہے ہیں۔ مگر آہستہ آہستہ اس مدرسے كے طالبعلموں كی شدت پسندانہ كارروائیاں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔

عبد الرشید اور عبد العزیز غازی كے شاگردوں نے چینی ہیلتھ وركرز كو یرغمال بنایا، حكومتی املاك كو نشانہ بنایا، رینجرز اہلكاروں پر حملے كیے اور پھر حكومت كے خلاف جہاد كا اعلان كر دیا۔  ان كا مطالبہ تھا كہ ملك میں فوری طور پر اسلامی حكومت قائم كی جائے اور شریعت كا نفاذ عمل میں لایا جائے۔ ان كا كہنا تھا كہ اگر ایسا نہ كیا گیا تو پورے ملك میں خود كش دھماكے کئے جائیں گے۔ اسلامی حكومت كا مطالبہ كرنے والوں میں مردوں كے ساتھ ساتھ جامعہ حفصہ كی خواتین بھی شامل تھیں۔

آغاز میں تو نجانے كیوں مشرف حكومت نے لال مسجد سے اٹھنے والی ان آوازوں كی طرف توجہ نہ دی مگر پھر ان كے شدت پسندانہ رویے كا سختی سے جواب دینے كے لیے آپریشن شروع كرنے كا فیصلہ كیا۔ اس آپریشن كے نتیجے میں بڑے بھائی مولانا عبد العزیز غازی برقعہ پہن كر فرار ہونے لگے مگر دھر لیے گئے۔ چھوٹے بھائی عبد الرشید نے ایسی ہرزہ رسائی سے بچنے كے لیے حكومت سے جانے كے لیے صاف راستہ مانگا مگر حكومت نے انكار كر دیا۔ عبد الرشید نے ہٹ دھرمی جاری ركھی اور نتیجہ یہ نكلا كہ وہ سیكیورٹی فورسز كی گولی كا نشانہ بنے اور دس جولائی دو ہزار سات كو ہلاك ہو گئے۔ یوں آپریشن سائلنس اپنے اختتام كو پہنچا۔

آپریشن سائلنس كے بعد وقتی سكوت تو حاصل ہو گیا تھا لیكن آج پھر لال مسجد مركز نگاہ بن گئی ہے۔ اس بار مولانا عبد العزیز حكومت كے سامنے ہیں۔ كہا جا رہا ہے كہ ان كا حكومت سے مطالبہ ہے كہ انہیں ساڑھے تین كروڑ روپے اور بیس كنال زمین دی جائے۔

اس ضمن میں حكومت كے لیے میرے دو سوال ہیں۔ پہلا سوال تو یہ ہے كہ مولانا عبدالعزیز آزاد كیوں ہیں؟ ایك شخص نے مسجد كا امام بن كر اپنے طالبعلموں میں شدت پسندی كا پرچار كیا، ماركیٹوں میں حجاموں اور ڈی وی ڈی كی دكانوں كو زبردستی بند كرایا، لوگوں كو اغوا كیا، مسجد میں اسلحہ اور بارود جمع كیا، حكومت كو دھمكیاں دیں، امن كی ہر كوشش كو مسترد كیا۔ اس شخص كی وجہ سے مسجد میں خوں ریزی  ہوئی، دس كمانڈو اور ایك رینجرز اہلكار شہید ہوئے جبكہ اس شخص كے اپنے اكانوے ساتھی ہلاك ہوئے۔ اور پھر یہ یہ سب كرنے كے بعد اس شخص نے برقع پہن كر فرار ہونے كی كوشش كی لیكن پكڑا گیا۔۔۔ یہ سب کرنے والا شخص كیسے آزاد گھوم سكتا ہے؟

آپریشن كے بعد لال مسجد سے ڈاكٹر ایمن الزواہری كے مولانا عبد العزیز اور مولانا عبدالرشید كے نام خطوط بھی ملے جن میں اس نے انہیں مسلح بغاوت پر اكسایا گیا تھا۔ اگر كسی اور ملك میں یہ واقعہ ہوتا تو ایسے شخص كے خلاف دہشت گردی كی دفعات لگا كر اسے سخت ترین سزا دی جاتی۔ سزائے موت نہ بھی ہوتی تو كم سے كم عمر قید ایسے شخص كا مستقبل ہوتی۔ لیكن پاکستان میں اتنا بڑا واقعہ ہو جانے كے كچھ ہی دن بعد مولانا عبدالعزیز ایك آزاد انسان كی حیثیت سے ملك میں گھوم پھر رہے تھے۔ یہ آزادی كس كی مرہون منت تھی؟ اور اگر آزادی تھی تو ایسے شخص پر حكومتی داروں كی نظر نہ ہونا کئی اور سوال كھڑے كر دیتا ہے۔

اس حوالے سے دوسرا سوال پاكستان میں موجود مسجدوں اور مدرسوں كے حوالے سے اٹھتا ہے۔ اس ملك كی ہر بڑی سڑك پر آپ كو کئی مساجد ملیں گی۔ محلوں كی سطح پر دیكھا جائے تو ہر دوسری گلی میں ایك مسجد بنی ہوئی ہے۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد سے سوات جانا ہوا تو راستے میں لگ بھگ آٹھ سے دس مقامات پر مسجد اور مدرسوں كی تعمیر كے لیے چندہ اكٹھا ہو رہا تھا۔ یہ ٹھیك ہے كہ مساجد كو اللہ كا گھر كہا جاتا ہے مگر اس بات كی گارنٹی كون دے گا كہ اللہ كے ان گھروں میں جو درس دیا جا رہا ہے وہ شدت پسندی اور دین كے نام پر قتل و غارت گری كا نہیں۔ كون یقینی بنائے گا كہ ان مدرسوں میں جو تعلیم دی جا رہی ہے وہ فساد فی الارض كی نہ ہو۔ یہ صرف اس وقت ممكن ہو گا جب اس ملك كی تمام مساجد اور مدارس پر حكومت كا كنٹرول ہو اور وہاں جو پڑھایا جائے وہ حكومت سے منظور شدہ ہو۔ مگر یہ كام بظاہر ناممكن نظر آتا ہے۔

اس كی سب سے بڑی وجہ یہی ہے كہ جو حكومت آج تك نجی طور پر چلنے والے اسكولوں، ہسپتالوں اور دیگر اداروں پر اپنا كنٹرول نہ قائم كر سكی، وہ مساجد پر اپنا كنٹرول كیسے قائم كرے گی۔ اس كی ایك مثال نجی اسكولوں كی فیس كا معاملہ ہے جس میں آج تك والدین منتظر ہیں كہ كوئی نتیجہ نكلے مگر حكومت اور عدالتیں اسكولوں كے مالكان كے سامنے بے بس نظر آتے ہیں اور جب بات مذہبی اداروں كو كنٹرول كرنے كی ہو، تو عوام كے جذبات ذیادہ بھڑك اٹھتے ہیں اور معاملات سڑكوں پر آتے دیر نہیں لگتی۔

دوسری وجہ یہ بھی ہے كہ مذہبی ادارے چلانے والے وہ لوگ جو واقعی دین كی خدمت كر رہے ہیں، ان كا حكومت پر اعتماد بھی نہیں۔ ان كا ماننا یہ ہے كہ حكومت بین الاقوامی قوتوں كی ایما پر مسجدوں كا كنٹرول اور مدرسوں كا نصاب بدلنا چاہتی ہے اور وہ اس کی قطعی اجازت نہیں دے سکتے.

ایسے حالات میں لگتا یہی ہے كہ شدت پسندی كا مقابلہ كرنے كے لیے كسی اور تدبیر كی ضرورت ہے۔ كوئی ایسی تدبیر ہو جو مولانا عبدالرشید غازی كے اس نظریے كا مقابلہ كر سكے جو ان کے اس سادہ سے جملے میں چھپا ہے۔۔۔۔ ہم شہید ہو جائیں گے لیكن ہار نہیں مانیں گے۔

ٹاپ اسٹوریز