کورونا، تیسری عالمی جنگ

خبر ہونے تک

کیاتیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے؟بالکل ہوگیا ہے اب یہ جنگ گولہ بارود کے ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ”حیاتیاتی ہتھیاروں“ سے لڑی جارہی ہے کورونا وائرس اس جنگ کا حیاتیاتی ہتھیار ہے۔یہ سازشی نظریہ کافی مضبوط ہوتا جارہا ہے اہل علم و دانش کے درمیان گفتگو کا اہم موضوع یہی ہے۔کورونا وائرس چند ہفتے قبل چین کے شہر ووہان میں ظاہر ہوا جہاں اب اس پر قابو پالیا گیا ہے لیکن اب یہ پاکستان،امریکہ،کینیڈا،برطانیہ سمیت دنیا بھر میں پھیل گیا ہے چین میں اس وائرس پر قابو پانے کے بعد معمول کی زندگی لوٹ رہی ہے جبکہ باقی دنیا میں ”لاک ڈاؤن“ عروج پر ہے امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک اوردیگر ممالک نے بڑے پیمانے پر لاک ڈاؤن کردیا پاکستان میں بھی ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی لگادی گئی ہے تعلیمی ادارے،مزارات،شادی ہالز،تفریح گاہیں،سنیما،بڑے شاپنگ مالزیہاں تک کہ ٹرانسپورٹ کو بھی محدود کردیا گیا ہے ایک طرف دنیا بھر میں کورونا کا خوف طاری ہے دوسری طرف چین اس خوف کی صورت حال سے نکل آیا ہے وہ تیزی سی بحالی اور بہتری کی طرف گامزن ہے کورونا سے پیدا صورت حال نے جہاں چین کو معاشی طور پر بڑا نقصان پہنچایاوہاں دنیا کو بھی کسی قابل نہیں چھوڑاچین کے بعد باقی دنیا جب بحالی کی طرف آئے گی اس وقت پتہ چلے گا کہ کون سا ملک کہاں کھڑا ہے اور کون کون سے ملک بحالی کے نام پر اپنا سکّہ بٹھاتے ہیں۔

مستحکم سازشی نظریہ تو یہی ہے کہ امریکہ نے چین کی بڑھتی اقتصادی قوّت کو روکنے کے لیے یہ وائرس چین منتقل کیا چین نے سرکاری طور پر بھی امریکہ پر یہ الزام لگایا ہے اس الزام کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف مسترد کیا ہے بلکہ چین کو ہی مورد الزام ٹہراتے اسے دھمکیاں بھی دی ہیں اور کورونا وائرس کو چینی وائرس کا نام دیا ہے چینی معیشت کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی معیشت کو داؤ پر لگانے والے اس کورونا وائرس کا موجد کون ہے ؟یہ حل طلب مسئلہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا پر حکمرانی کے لیے جنگیں ہوتی رہی ہیں معلوم اور معروف تاریخ میں سکندر اعظم سے آج تک ملکوں کو تاراج کرنے اور انھیں غلام بنانے کے لیے ممالک کے ایک دوسرے پر حملوں کی تاریخ بھری پڑی ہے سو سال کی تاریخ میں دو بڑی جنگیں لڑی گئیں جنھیں تاریخ میں عالمی جنگیں کہا جا تاہے گزشتہ چار دہائیوں سے تیسری عالمی جنگ کی بازگشت سنائی دی جاتی رہی ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ روایتی گولہ بارود یا ایٹمی جنگ بحث و مباحثہ سے غائب ہوتی گئی اور اس کی جگہ حیاتیاتی جنگ کی باز گشت سنائی جانے لگی 80 اور90 کی دہائی میں مستقبل میں وائرس کے حوالے سے کتابیں لکھی گئیں مضامین لکھے گئے اور فلمیں بنائی گئیں 2011 میں بننے والی ہالی وڈ کی فلم Contigion میں تو بالکل آج کی صورت حال کی عکاسی کی گئی ہے جس میں بتایا گیا کہ ایک امریکی خاتون بنکاک جاتی جہاں وہ ایک وائرس کا شکار ہوجاتی جب امریکہ واپس آتی ہے اس وقت اسے پتہ نہیں چلتا چند دنوں کے بعد وہ بیمار ہوتی ہے اور دو دن میں ہی مرجاتی ہے پھر اس کا بچہ بیما ہوجاتا دیگر اور لوگ بھی،بڑے پیمانے پر تحقیق وائرس کے پتہ لگانے سے اس کی دوا کی تیاری تک یہ وائرس دنیا میں پھیل جاتا ہے ہزاروں اموات ہوتی ہیں میڈیا بالخصوص بلاگر اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور پیسے کماتے ہیں۔

گولہ بارود اور ایٹم کی بالادستی کا جوش وجزبہ 80 کی دہائی تک غالب رہا چین نے جو امریکہ اور روس کی طرح خود بھی گولہ بارود اور ایٹم کی بالادستی کی جدوجہد میں لگا تھا 80 کی دہائی اور خاص طور سے سوویت یونین کے ٹوٹنے بعد گولہ بارود کی جگہ اقتصادیات کو اپنا ہتھیار بنایا اور اس میں تیزی سے ترقی کی امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا امریکہ گولہ بارود کے ساتھ حیاتیاتی ہتھیاروں پر بھی توجہ دے رہا تھا امریکہ کے علاوہ دیگر ممالک بشمول چین بھی حیاتیاتی ہتھیار کی کوششوں میں مصروف رہے2003 میں سارس وائرس اور اینتھرس کے بعد سے چین مسلسل امریکہ پر الزام لگاتا رہا کہ امریکہ حیاتیاتی ہتھیار بنا رہا ہے اور استعمال کررہا ہے اس کے جواب میں امریکہ بھی چین پر ایسے ہی الزامات لگاتا رہا ہے، چین معاشی اور اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اور بالخصوص ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں بھی بہت تیز رفتا ترقی کررہا تھا اور ساتھ ہی دنیا کو ون روڈ ون بیلٹ یعنی سڑک کے ذریعہ ملا رہا تھا جو در حقیقت جنگ کیے بغیر دنیا پر حکمرانی کی نئی شکل ہے لہٰذا مخالف اور مقابل ممالک کیسے حکمرانی خاموشی سے چین کو دے دیتے لہٰذا گولہ بارود کی جگہ حیاتیاتی جنگ کا میدان چنا گیا۔

پہلی اور دوسری جنگیں عظیم میں کروڑوں لوگ مارے گئے تھے ممالک کے ممالک تباہ اور برباد ہوگئے تھے جس کی بحالی میں بڑا سرمایہ اور بڑا وقت لگا ان جنگوں کے بعد امریکہ اور سوویت یونین دو بڑی طاقتوں کے طور پر سامنے آئے کیونکہ ان ممالک نے تباہ ہونے والے ممالک کی مالی مددکرکے انھیں اپنا ہمنوا بنالیا تھاجس کی مدد امریکہ نے کی وہ امریکی کیمپ کا کہلایا جس کی مدد سوویت یونین کی وہ اس کا ساتھی کہلایا سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد چین ایک نئی عالمی قوت کے طور پر سامنے آیاجو جنگ نہیں اقتصادیات کے نعرے کے ساتھ آگے بڑھا امریکہ اور سوویت یونین جو سرد جنگ کے دور میں مختلف ممالک میں پراکسی جنگیں لڑکر ایک طرف اسلحہ بیچ کر سرمایہ کماتے تھے تو دوسری طرف ممالک کو اپنے زیر دست بھی رکھتے تھے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد امریکہ روس سرد جنگ تو ختم ہوگئی اور امریکہ اکیلا دنیا کا حکمراں بن گیا لیکن چین کے اقتصادی قوت بننے کے بعدامریکہ کا عالمی حکمرانی کا خواب ادھورا رہ گیا لہٰذا نئے منظر نامے میں اب امریکہ کے مدمقابل چین آگیا چین چونکہ اقتصادی قوت تھا یہاں روایتی گولہ بارود کی جنگ اس لیے ممکن نہیں تھی کہ چین اس کا حصہ نہیں بنتا اور شاید امریکہ اقتصادی طور پر چین کا مقابلہ کرنا نہیں چاہتا چین کی عالمی حکمرانی بھی امریکہ کا ہضم نہیں ہورہی تھی لہٰذاحیاتیاتی ہتھیار استعمال کیا گیا۔اس سازشی نظریے کے تحت امریکہ اور اس کا اتحادی یورپ اب مختلف ممالک میں امداد اور قرضوں کے نام پر پھر اپنا اثرورسوخ بڑھائیں گے اپنی دوائیں اور دیگر اشیا بیچ کر اپنی معیشت کو مضبوط کریں گے چین کے خلاف عالمی سطح جو پرپیگنڈہ کیا گیا اور میڈیا کو جس طرح استعمال کیا گیا اس کے بعد چین پر دنیا کا اعتماد بحال ہونے میں وقت لگے گااس طرح تیسری عالمی جنگ کم سے کم انسانی زیاں اور شہری تنصیبات کو نقصان پہنچائے بغیر مالی اور سیاسی طور پر امریکہ اور اس کا اتحادی یورپ جیت جائے گااور پس ماندہ اور غریب ممالک کی حکومتیں امداد اور قرضوں کے گورکھ دھندوں میں کرپشن کا شکار ہو کر اپنے ممالک کو اور پستی کی طرف جائیں گی۔

ٹاپ اسٹوریز