کورونا وائرس اور 18 ویں ترمیم

کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان توپوں کی زد میں ہیں جسے انگریزی میں  ان دی لائن آف فائر کہا جاتا ہے ۔ ا ن پر لاک ڈائون کے حوالے سے شدید تنقید کی گئی ۔ تنقید کسی حد تک درست بھی تھی کیونکہ وزیر اعظم اور ان کی مشیر برائے اطلاعات لاک ڈائون کی مختلف تعریفیں کرتے نظر آئے۔ تاہم مجموعی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو عمران خان کے پاس بطور وزیرا عظم کرونا سے نمٹنے کے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن تنقید کی زد میں وہ سب سے زیادہ ہیں۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں یہ کیسی بات کر رہا ہوں کہ ملک کا وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی عمران خان کے پاس کورونا وائرس سے  پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ لیکن  میں جو بات کہہ رہا ہوں و ہ سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے  والی صورتحال کا بنیادی تعلق دو شعبوں سے ہے۔ ان میں سے ایک صحت اور دوسرا امن و امان ( لا ء اینڈ آرڈر ) کا شعبہ ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد دونوں شعبے مکمل طور پر صوبوں کے پاس ہیں۔ عمران خان کے پاس صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کا شعبہ صحت اور امن و امان کا اختیار ہے۔ صوبے مکمل طور پر آزاد ہیں کہ وہ اس حوالے سے کیا اقدامات کریں۔ عمران خان کے پاس بطور چیئر مین تحریک انصاف دو صوبوں کی زمام اقتدار ضرور ہے کیونکہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں ان کی پارٹی کی حکومتیں ہیں اور وہ لاک ڈائون کے حوالے سے ان پر اثر انداز ہو سکتے تھے لیکن بطور وزیر اعظم ان کے پاس صرف اسلام آباد کا علاقہ ہے۔ اگر پنجاب یا خیبر پختونخواہ میں کرونا وبا سے متعلق عمران خان سے کوئی کمی کوتاہی ہوئی ہے تو وہ بطور وزیر اعظم نہیں ہوئی بلکہ بطور چیئرمین تحریک انصاف ہوئی ہے۔

میں یہ تحریر وزیرا عظم عمران خان کا دفاع کرنے کے لیے نہیں لکھ رہا ۔ بلکہ میرا مقصد یہ ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد جو پیچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں ان کو اجاگر کیا جائے۔ کورونا پورے ملک کا مسئلہ ہے لیکن اٹھارہویں ترمیم کی وجہ سے  ہم کوئی ملکی سطح کی جامع پالیسی نہیں بنا سکتے۔ سندھ نے پہلے لاک ڈائون کا اعلان کر دیا۔ بلوچستان بھی اس کے ساتھ لاک ڈائون پر چلا گیا اور پنجاب اور خیبر پختونخواہ کافی دیر بعد اس طرف گئے۔ چاروں صوبے‘ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سب کے سب صحت اور امان و امان کی پالیسیاں بنانے میں آزاد ہیں اور کوئی ایسا میکنزم موجود نہیں کہ قومی سطح کی ایک پالیسی بنائی جا سکے۔ سب اپنی اپنی پالیسیوں پر گامزن ہیں جس کی وجہ سے اس وبا سے نمٹنے کی کوششوں میں کوئی ربط و ضبط نظر نہیں آ رہا ۔ اور اس عدم ربط کی بنیادی وجہ اٹھارہوں ترمیم ہے۔

صوبائی خود مختاری  کے نام پر ہم نے عملا مرکز کو بہت کمزور کر کے رکھ دیا ہے۔ چند دن  پہلے میں قومی اسمبلی کی ویب سائیٹ پر موجودہ قومی اسمبلی کی قانون سازی کی فہرست دیکھ رہا تھا تو تین چار قوانین کا متن دیکھا تو ان کا اطلاق صرف اور صرف وفاقی دارلحکومت اسلام آباد تک محدود تھا۔خواتین کو جائیداد میں وراثت کے حق کا قانون‘ وراثت کی تقسیم کے سرٹیفیکیٹ کا قانون‘ سیمنا گھروں میں سگریٹ نوشی سے ممانعت کا قانون  اور نابالغ بچوں میں سگریٹ نوشی کاقانون ان چند آرڈیننسز اور ایکٹس میں سے ہیں جو قومی اسمبلی کی ویب سائیٹ پر موجود ہیں اور ان کا اطلاق صرف اور صرف وفاقی دارلحکومت اسلام آباد پر ہوتا ہے۔ یعنی اب قومی اسمبلی پورے ملک سے سگریٹ نوشی کے خاتمے یا خواتین کو وراثت میں حق دلوانے کا قانون بھی پاس نہیں کر سکتی اور ایسے قوانین وہ صرف وفاقی دارلحکومت کے لیے ہی بنا سکتی ہے حالانکہ اسلام آباد کے لیے قانون سازی ضلعی اسمبلی میں ہونی چاہیے جو ایک الگ سے منتخب شدہ باڈی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے  نہ صرف وفاق کو کمزور کیا ہے بلکہ پارلیمنٹ کے اختیارات بھی محدود کر دیئے ہیں۔ اب پارلیمنٹ صحت اور امن عامہ یا دوسرے صوبائی معاملات کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی۔ تعلیم کا شعبہ بھی اب صوبائی حییثیت اختیار کر چکا ہے۔ ادھر ہم نے صرف اسلام آباد کے لیے ایک وفاقی وزیر تعلیم اور ایک وزیر برائے قومی ہیلتھ کا عہدہ رکھا ہوا ہے جو آج کل وزیر اعظم کے خصوصی معاون ڈاکٹر ظفر مرزا کے پاس ہے۔ ڈاکٹر ظفر مرزا ہر روز ٹی وی پر موجود ہوتے ہیں لیکن عملا ان کی وزارت کے پاس اسلام آباد سے باہر کوئی اختیار نہیں۔ اسلام آباد کے ہسپتال بھی قانونی طور پر خود مختار ہیں اور قومی صحت کی وزارت ان پر اگر کوئی اثر و رسوخ استعمال کرتی ہے تو وہ محض اخلاقی دبائو ہے قانونی طور پر یہ محکمہ بالکل ہی بے اختیار ہے۔ ان دونوں وزارتوں کو چلانے کے لیے کروڑوں کا سالانہ بجٹ خرچ ہو رہا ہے جس کی کوئی عملی افادیت نہیں۔

اٹھارہویں ترمیم نے عملا وفاق کو کمزور اور صوبوں کو طاقتور کر دیا ہے۔ عمران خان یا کوئی بھی وزیر اعظم ہوتا کرونا وائرس سے نمنٹنے کے لیے اس کے پاس سوائے اسلام آباد کے لیے پالیسیاں بنانے کے صحت اور امن و امان کے حوالے سے کوئی اختیارات نہیں۔لاک ڈائون کرنا پولیس اور ضلعی انتظامیہ کا کام ہے۔ وزیر اعظم اسلام آباد سے باہر اس حوالے سے کوئی حکم جاری کر ہی نہیں سکتے تو ان کو مورد الزام ٹھہرانے سے کیا حاصل۔ وہ ٹی وی پر قوم کو تسلی دے سکتے تھے اور وہ انہوں نے بہت اچھی طرح دی۔

کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال نے ایک بار پھر اس بات کی ضرورت کو اجاگر کیا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے کئی پہلوئوں پر نظر ثانی کی جائے۔ ایک بے اختیار وفاق کے ساتھ پاکستان ایک وفاقی ریاست کیسے رہ سکتاہے اور کیسے آگے بڑھ سکتا ہے اس پر مباحثے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر آئینی ماہرین جو اس وقت یقینا گھروں میں رہ رہے ہیں اور ان کے پاس کافی فارغ وقت بھی موجود ہے میری ان سے درخواست ہے کہ وہ اس وقت کو اٹھارہویں آئینی ترمیم کا جائزہ لینے پر صرف کریں ۔ میری میڈیا کے دوستون سے بھی گزارش ہے کہ کرونا کے تناظر میں اٹھارہویں ترمیم پر متعقلہ حلقوں کی توجہ مبذول کرائیں۔ ممکن ہے کہ قوم کے لیے کوئی قابل عمل تجاویز سامنے آجائیں اور دس سال پہلے (اپریل 2010) میں ہم نے اگر کچھ غلطیاں کی تھیں تو ان کی تلافی کی جا سکے۔

عبداللہ خان اسلام آباد میں قائم ایک تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی سٹڈیز(پکس) کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز