بجلی کی قیمتوں میں اضافہ اور عوامی بے بسی

گیس کی قیمتوں میں اضافے کے بعد حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا ہے اس کا اعلان گذشتہ ہفتے تین وفاقی وزراء وزیر خزانہ اسد عمر،وفاقی وزیر توانائی عمر ایوب خان اور وزیر اطلاعات فواد حسین چوہدری کے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔

وزیر توانائی کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بجلی کے نرخوں میں 3.82 فیصد کے اضافے کی شفارش کی تھی جب کے حکومت نے اس کو کم کرکے 1.27 روپے فی یونٹ کیا ہے تاکہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے۔

تفصیلات کے مطابق وہ صارفین جو کہ 300 یونٹ تک ماہانہ بجلی استعمال کرتے ہیں ان پر اس اضافے کا اطلاق نہیں ہوا۔ 300 سے 700 یونٹ بجلی صرف کرنے والے صارفین پر 10 فیصد جبکہ 700 یونٹ سے زیادہ صرف کرنے والے صارفین پر 15فیصد اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں پورے مہینے میں 300 یونٹ سے کم بجلی خرچ کرنی ہوگی ورنہ پھندا تیار ہے۔

گیس اور بجلی کے نرخوں میں اضافے اور نئے ٹیکسوں کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ چونکہ اس وقت ملک کے خزانے کو 12 سے 18 ارب ڈالرز کی مالی کمی کا سامنا ہے، اس لئے حکومت نئے ٹیکسوں سمیت توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے پر مجبور ہے۔ یہ بات وزیر اعظم عمران خان وزیر خزانہ اسد عمر سمیت متعدد حکومتی نمائندے کرچکے ہیں۔

حکومت کے مطابق ن لیگ اور پی پی پی کی پچھلی حکومتوں نے ملک کو 24000 ارب روپے کے نئے قرضوں کی دلدل میں ڈبو دیا ہے اور آج قرضوں پر سود ادا کرنے کے لئے ہمیں مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے قوم سے خطاب میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ن لیگ اور پی پی پی کی حکومتوں کے دوران حاصل کئے گئے قرضوں کا آڈٹ کیا جائے گا یہ عمل نہایت ضروری ہے کیونکہ قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریاست اور قوم کے نام پر حاصل کردہ قرضے کس مد میں خرچ کئے گئے قوم کاپیسہ ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی پرلگایا گیا ہے اور کون سا بدعنوان سیاست دانوں اور افسروں کی تجوریوں میں بھرا گیا۔

حکومت کی حکمت عملی ہے کہ وہ توانائی کی قیمتوں میں اضافے ٹیکسوں، دوست ممالک سے امداد اور آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرکے مالی اور معاشی صورت حال پر قابو پانے کی کوشش کی جائے حکومت کی یہ بھی کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ مالی امداد دوست ممالک سے حاصل کی جائے تاکہ آئی ایم ایف کی سخت شرائط سے ملک اور عوام کو بچایا جاسکے اور یہ ایک اچھی حکمت عملی ہے کیونکہ عالمی مالیاتی فنڈ کے ڈالرز شدید نامناسب شرائط کے ساتھ ملک میں آئے ہیں خاص کردہ جن کا تعلق مہنگائی کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ اداروں میں اصلاحات کی شرائط پر آج تک کسی بھی ماضی کی حکومت نے عمل درآمد نہیں کیا۔

بدقسمتی سے سارے کا سارا بوجھ کمزور اور بے بس عوام پر ہی ڈالا جاتا ہے آج بھی عوام تبدیلی والوں کی باتوں پر شاکی ہیں کہ ان پر تو بجلی ،گیس اور ٹیکسوں کی مد میں تلوار چلادی گئی مگر کیا باقی کام کیا جائے گا اس کی کوئی گارنٹی نہیں آپ کے سامنے اکتوبر 2018 کا ایک صارف کا بجلی کا بل پیش کرنا چاہتا ہوں کہ جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ بجلی والے کس طرح سے عوام کا خون چوس رہے ہیں اس صارف کا کل بجلی کا بل 10467 روپے تھا اور اس کے بل کی تفصیل کچھ اس طرح سے تھی کہ کل یونٹ 529 خرچ ہوئے جس کی بل میں قیمت 6099.83 روپے درج کی گئی تھی اس کے علاوہ فیول ایڈجسٹمنٹ 1146.05 روپے، ایف سی سرچارچ 227.47، ٹی آر سر چارچ 1398.17 روپے پی ٹی وی فیس 35روپے، جی ایس ٹی1313روپے،نیلم جہلم سرچارچ 52.90روپے،جی ایس ٹی آن فیول پرائز ایڈجسٹمنٹ 195روپے اس طرح ایک بل کے اندر بجلی کی اصل قیمت کے علاوہ عوام کو سات مختلف اقسام کے ٹیکسوں سے سزا دی جاتی ہے اگر نیلم جہلم کا منصوبہ متعدد بدعنوان حکومتوں کی وجہ سے بروقت مکمل نہ ہونے کی وجہ سے بجٹ میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا تو اس کی قیمت عوام کیوں ادا کررہے ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ ایف سی اور ٹی آر سرچارج کس بلا کا نام ہے فیول ایڈجسٹمنٹ اور اس پر جی ایس ٹی ایک بھتہ خوری کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ ملکی معیشت ٹھیک ہو یا نہ ہو مگر ہر نئی حکومت نے عوام کو مہنگائی کی چکی میں ضرور پیسا ہے اور لگتا ہے کہ تبدیلی والے بھی کچھ اسی منصوبہ بندی پر عمل کرنے کی کوشش میں ہیں۔

توانائی کے وفاقی وزیر جناب عمر ایوب خان ایک نیک نیت اور قابل انسان ہیں انہوں نے وعدہ کیا ہے کہ ان کی وزارت سابقہ بلوں کے 900 ارب روپے صارفین سے وصول کرے گی اس طرح موجودہ مالی سال میں 140ارب تکنیکی خساروں کو کم کرکے حاصل ہوں گے۔

اسی طرح بجلی کی چوری پر بھی قابو پانے کے لئے ٹرانسفارمرز پر میٹر بھی نصب کئے جارہے ہیں۔ ہم امید اور دعا گو ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اپنے وعدوں اور دعوؤں میں کامیاب ہوجائے گی ورنہ پانچ سال بعد آنے والی حکومت نے سارے کا سارا ملبہ پی ٹی آئی پر ڈالے گی اور عوام کو مزید مہنگائی کی چکی میں پیسنے کے لئے تیار ہونے کا درس دے گی۔

ٹاپ اسٹوریز