کراچی میں تجاوزات کا خاتمہ: وقتی تکلیف لیکن ضروری

عروس البلاد کراچی پاکستان کا سب سے اہم تجارتی مرکز ہونے کے ساتھ ملک کی شہہ رگ کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس شہر میں رونما ہونے والے واقعات دیگر کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہوجاتے ہیں جس کی تازہ ترین مثال تجاوزات کے خاتمے کے حالیہ مہم کی ہے۔

اس وقت پورے ملک میں ہر جگہ ناجائز قبضے، غیر قانونی تجاوزات کے خلاف کارروائیوں کا عمل جاری ہے لیکن عوام کی اکثریت یا تو اس امر سے ناواقف ہے یا پھر انہیں اس معاملے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے تاہم کراچی میں تجاوزات کے خلاف ہونے والی کارروائی کا شور پورے ملک میں سنا جارہا ہے۔

کراچی کی کچی آبادیوں میں غیرقانونی تعمیرات، چائنا کٹنگ، گراﺅنڈز اور پارکوں پر غیر قانونی قبضے، فلاحی پلاٹوں پر قائم شادی گھروں، کراچی میں کے پی ٹی اور ریلوے کی بڑی اراضی پر قبضے کی کہانی نئی نہیں ہے۔ ہر دور میں آنے اور جانے والے حکمرانوں کے علاوہ شہر کی طاقتور قبضہ مافیا نے سونے جیسے اس شہر کو مال غنیمت سمجھتے ہوئے یہاں ہر طرح کی لوٹ مار کی، کسی نے چائنا کٹنگ کی صورت میں قیمتی زمینوں پر ہاتھ صاف کیا تو کسی نے فلاحی زمینوں پر شادی ہال تعمیر کرکے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے یہاں تک کہ ڈائریکٹر کچی آبادی کے مطابق قبضہ مافیا بلڈرز نے کراچی کی 100 سے زائد کچی آبادیوں میں غیر قانونی عمارتیں بھی بنالیں۔ اس بحث سے قطع نظر کہ جب یہ عمارتیں تعمیر ہورہی تھیں تو ذمہ داران کہاں تھے اور اب اگر وہ جاگے ہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ سال گزشتہ میں ہی ان کچی آبادیوں کو مسمار کرنے کے لیے خصوصی سیل قائم گیا اور تا دم تحریر بتدریج ان کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔

ملک بھر میں قائم تجاوزات کی بات ایک نہایت حساس معاملے کی صورت میں قومی اسمبلی میں اُٹھائی گئی جس کے بعد قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی ہاﺅسنگ اینڈ ورکس نے اس حوالے سے انتہائی سنجیدہ اقدامات کرتے ہوئے ملک بھر میں تجاوزات کے خلاف کارروائی کا عندیہ دیا۔

اس ضمن میں سرکاری رہائش گاہوں پر غیر قانونی قبضوں کے خلاف کارروائی کا بھی حکم جاری ہوا جب کہ اس ضمن میں کراچی کی ناگفتہ بہ صورتحال کے پیش نظر انفرااسٹرکچر اور اینٹی انکروچمنٹ کے وفاقی ادارے فعال کردیئے گئے جس کا مقصد کراچی میں انفراسٹرکچر ڈیولپمنٹ ہے۔

مجھے یاد ہے کہ آج سے سات یا آٹھ ماہ قبل میں نے کراچی سے ٹنڈوالہ یار کا بذریعہ روڈ سفر کیا تھا۔ اس دوران مجھے بہت سارے مقامات پر غیرقانونی عمارات کی انہدامی کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ یہ بات قبل ازیں میرے علم میں نہیں تھی۔ ایسی اکثریتی عمارتوں کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا چنداں دشوار نہ تھا کہ متعلقہ اداروں نے انتہائی غیر جانبدارنہ کارروائی کی ہے، اسی لئے جب میں نے کراچی میں ایسا ہوتے دیکھا تو مجھے زیادہ تعجب نہ ہوا۔

گزشتہ سال کے وسط سے ہی کراچی کے مختلف علاقوں سے غیر قانونی طور پر قائم پتھاروں، ٹھیلوں اور دکانوں کے خاتمے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا جس میں کریم آباد، لانڈھی بابر مارکیٹ، سرجانی ٹاﺅن، بلدیہ کورنگی اور یونیورسٹی روڈ سمیت دیگر بہت سے علاقے شامل ہیں۔

چند ماہ قبل شاہراہ فیصل پر سفر کرنے والے غیر قانونی طور پر کمرشل بنیادوں پر قائم کردی جانے والی دیواروں کی توڑ پھوڑ کے شاہد ہیں، اب یہ علیحدہ بات ہے کہ ان کے ذہنوں میں بھی یہ سوالات پھنکاریں مارتے ہوں کہ جب یہ دیواریں بنائی جارہی تھیں تب ذمہ داران کہاں تھے جبکہ شاہراہ فیصل کنٹونمنٹ بورڈ کے ماتحت آتی ہے۔

یہ بات ہے جون 2018ء کی جب ڈائریکٹر جنرل ادارہ ترقیات کراچی سمیع الدین صدیقی نے ہنگامی اجلاس طلب کرکے تجاوزات کے خلاف بھرپور کارروائی اور سلسلے کو منطقی انجام تک پہنچانے کا عزم کرتے ہوئے چائنا کٹنگ کو برداشت نہ کرنے اور کسی قسم کا دباﺅ قبول نہ کرنے کی بات بھی کی۔

اُن کی جانب سے اکادکا کارروائیاں عمل میں آرہی تھیں تاہم جیسے ہی وفاقی حکومت کی جانب سے اشارہ ملا اور سپریم کورٹ نے احکامات جاری کئے سرکاری مشنری تیزی سے حرکت میں آگئی۔

محکمہ انسداد تجاوزات بلدیہ عظمیٰ کراچی، بلدیہ شرقی اور جنوبی نے کنٹونمنٹ بورڈ، سوئی سدرن گیس اور کے الیکٹرک کے عملے کے ہمراہ عملی تجاوزات کے خلاف آپریشن کا آغاز کردیا، کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے رینجرز اور پولیس کی بھاری نفری بھی ہمراہ لے لی گئی۔

میونسپل کمشنر سیف الرحمٰن کی جانب سے احتیاطی تدابیر کے طور پر آپریشن شروع کرنے سے قبل مختلف بینرز اور پمفلٹس بھی تقسیم کئے گئے تاکہ کاروباری حضرات تجاوزات کو ازخود ہٹادیں، آپریشن کیلئے تین مراحل طے کئے گئے جس میں پہلے مرحلے میں فٹ پاتھوں پر قائم تمام تجاوزات کو صاف کرنا، دوسرے مرحلے میں دکانوں کے ساتھ قائم تجاوزات کو ہٹانا جبکہ تیسرے مرحلے میں ایمپریس مارکیٹ کی اصل حالت میں واپس بحالی کیلئے تجاوزات کے خلاف کارروائی شامل تھی۔ واضح رہے کہ ایمپریس مارکیٹ کی تاریخی راہداریوں میں قائم یہ تجاوزات اس قدیم عمارت کے تاریخی حسن کو کو گہنانے کا سبب بن رہی تھیں۔

منصوبہ بندی کے عین مطابق عملی اقدامات کرتے ہوئے ایمپریس مارکیٹ، ریگل چوک اور الیکٹرانکس مارکیٹ پریڈی اسٹریٹ پر تجاوزات کے خلاف کارروائی کے دوران پتھارے ہٹادیئے گئے، غیرقانونی دکانیں گرادی گئیں، سائن بورڈز اور شیڈز اتار دیئے گئے۔

انتظامی مشینری نے تجاوزات کےساتھ ساتھ ریگل چوک صدر میں اخبارات کے ’قانونی‘ اسٹال بھی ہٹادیئے۔ گرینڈ آپریشن کی نگرانی کرنے والے میونسپل کمشنر ڈاکٹر سیف الرحمٰن کا کہنا ہے کہ کے ایم سی اپنی ایک انچ زمین بھی نہیں چھوڑے گی، شہر کا نقشہ تجاوزات کے خاتمے سے ہی بدلا جاسکتا ہے ۔کسی قسم کا احتجاج آپریشن نہیں روک سکتا، شہر بھر میں بلا امتیاز کارروائی جاری رہے گی۔

ایمپریس مارکیٹ کے اطراف آپریشن میں دکانیں گرائے جانے پر دکانداروں اور اخبارات کے اسٹالوں کے مالکان نے یہ موقف اختیار کرتے ہوئے ایمپریس مارکیٹ کے سامنے احتجاج کیا کہ وہ 50 سالوں سے کے ایم سی اور دیگر اداروں کو لاکھوں روپے ادا کررہے ہیں، اس کے باوجود اچانک دکانیں گرادی گئیں۔ انہوں نے متبادل جگہ کی فراہمی کا مطالبہ بھی کیا۔ اخبار فروش یونین کا کہنا ہے کہ ان کے اور شہری انتظامیہ کے درمیان دہائیوں قبل باہمی مفاہمت سے یہ طے پایا تھا کہ ان کے اسٹالز تجاوزات میں شمار نہیں ہوں گے اور نہ ہی کسی آپریشن کے دوران انہیں تنگ کیا جائے گا۔

اس ضمن میں باقاعدہ ایک ماڈل اسٹال کی منظوری بھی دی گئی تھی جس کا معائنہ فیرئیر مارکیٹ میں انتظامیہ کے اعلیٰ افسران نے خود کیا تھا تاہم حالیہ مہم میں یہ اسٹالز بھی کارروائی کا حصہ بن گئے۔اب دکان دارو ں اور پتھارے داروں سمیت تمام متاثرین کو سمجھ جانا چاہئے کہ سالہا سال سے لاکھوں روپے جسے وہ کرایہ سمجھ کر دے رہے تھے وہ دراصل تھا کیا۔
میئر کراچی وسیم اختر کا موقف ہے کہ ہم ایمپریس مارکیٹ کی اصل شکل اور شہر کی خوبصورتی کو لوٹانا چاہتے ہیں، ماضی میں جو غلطیاں ہوئیں انہیں نہ دہرایا جائے، کے ایم سی نے جو علاقے کرائے پر دیے ہوئے تھے ان سب کا کنٹریکٹ ختم کردیا گیا ہے۔

وسیم اختر کے مطابق ہم کسی کا روزگار چھیننا نہیں چاہتے، صرف تجاوزات ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہماری کوشش ہوگی کہ مستقبل میں تجاوزات قائم نہ ہوں، اگر کوئی قانون کو ہاتھ میں لے گا تو اس کے خلاف کارروائی کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ادارے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل کرنا چاہتے ہیں، ہم کسی کے ساتھ ناجائز نہیں ہونے دیں گے، آپریشن کے نتیجے میں بیروزگار ہونے والوں کو متبادل مارکیٹ میں جگہ دیں گے۔

یا رہے کہ سابقہ شہری حکومت میں ٹاﺅن اور شہری حکومت کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں بشمول حیدری مارکیٹ، کریم آباد، گلشن اقبال اور لیاقت آباد 12000 سالانہ کے کرائے پر کیبن الاٹ کئے جنہیں مڈل مینوں نے لاکھوں روپے میں فروخت کرکے اپنے مستقبل سنوارلیے تاہم حالیہ کارروائیوں میں ان کیبنوں کا بھی دھڑن تختہ ہوگیا۔

کراچی کے باسیوں بالخصوص صدر کے علاقے سے گزرنے والوں کی نگاہیں تجاوزات کے خاتمے کے مناظر دیکھنے کی عادی ہیں، ہر دوسرے دن پتھارے داروں اور ٹھیلوں کو ہٹایا جانا اور ہر تیسرے دن ان کا واپس اپنی جگہ پر آجانا معمول کی باتیں ہیں لیکن اس بار بات کچھ خاص ہے، اس بار سپریم کورٹ کے خوف سے یا پھر اپنی جانیں بچانے کی غرض سے بلاتخصیص کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے۔

دیکھنے والی نگاہوں کو یقیناً یہ ظلم لگ رہا ہے، میڈیا طرفین کے موقف کو یکساں طور پر سامنے لارہا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ کراچی کو تجاوزات کے بوجھ سے آزاد کیا جانا وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے ۔ ایک منزل کی جگہ کئی کئی منازل کی غیر قانونی تعمیر، ندی نالوں پر تعمیرات، سڑکوں اور ذیلی سڑکوں پر کھڑے ہوئے ٹھیلے اور عارضی دکانیں ایک جانب شہر کے حسن کو ماند کرنے کا سبب ہیں تو دوسری جانب انفراسٹریکچر کی تباہی باعث بھی ہیں۔

ماضی میں شہر کے منتظمین نے کئی بار اقدامات کرتے ہوئے پتھارے داروں اور ٹھیلے والوں کو متبادل جگہیں فراہم کیں اور کیبن بنا کر دیئے گئے لیکن بے فیض ۔”متاثرہ“ لوگوں نے متبادل انتظام کو ”اضافی آمدنی “کا ذریعہ بناتے ہوئے انہیں کرائے پر چڑھادیا اور واپس اپنی جگہ آگئے کہ زیادہ سے زیادہ ”وردی والوں “کا منہ ہی بند کرنا پڑے گا۔ اب ایک بار پھر یہ سلسلہ دراز ہوا ہے اور میئر کراچی کی دعویداری ہے کہ کسی کو بے روزگار نہیں کیا جائے گا بلکہ روزگار کیلئے متبادل جگہیں فراہم کی جائیں گی، چلیں دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کارروائی کے دوران جن افراد کو خسارہ اٹھانا پڑا ان کی اعانت کرتے ہوئے ان کیلئے فوری طور پر متبادل روزگار کا بندوبست کیا جائے کیوں کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس تمام کارروائی کی وجہ سے غریب ٹھیلے اور پتھاروں والوں کے گھروں کے چولہے جلنے دشوار ہوگئے ہوں گے۔

نہایت ضروری ہے کہ بھتہ مافیا جسے تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیاجاسکتا ہے، پر کڑی نظر رکھتے ہوئے ان کی سرکوبی کی جائے اور ایسی منصوبہ بندی کی جائے کہ مستقبل میں تجاوزات قائم نہ ہوسکیں، ایسے سخت اصول وضع کئے جائیں کہ لوگ غیر قانونی تعمیرات یا قبضوں کا سوچتے ہوئے بھی گھبرائیں۔

شہر کے مختلف علاقوں میں ہونے والی کارروائیاں ابھی تک تو غیر جانبدار لگ رہی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ان کے انتہائی مثبت نتائج سامنے آئیں گے تاہم خدشہ اس بات کا ہے کہ کہیں ماضی کی طرح یہ ساری کارروائی بھی محض ”وقت کا تقاضہ“نہ ہو اور کچھ عرصے بعد ہم ایک بار پھر اسی کراچی کو دیکھ رہے ہوں جسے آج تک دیکھتے آئے ہیں۔

دنیا بھر میں پاکستان کی شناخت سمجھے جانے والے کراچی میں ہونے والی سرگرمیاں پاکستان کے منفی اور مثبت امیج کا سبب بنتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل تک سیاح اس شہر کی تاریخ اور حال کو دیکھنے کیلئے یہاں کا رُخ کیا کرتے تھے لیکن گزشتہ چند دہائیوں میں اس شہر کے ساتھ روا رکھا جانے والا ناروا سلوک کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، اب معاملات بہتری کی طرف جارہے ہیں، شہر میں قیام امن کے بعد انفراسٹریکچر کی بہتری اور تجاوزات کا خاتمہ یقیناً خوشگوار صورتحال کا باعث بنے گا۔

تھوڑی سی تکلیف ضرور ہے لیکن اگر جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو تو اس حصے کو کاٹ کر پھینکنے جیسا تکلیف دہ عمل کرنا ہی پڑتا ہے۔

ٹاپ اسٹوریز