جناح اسٹیڈیم۔۔۔اسکواش کورٹ خستہ حالی کاشکار!

ویسے تو ہفتے کے چند روز ورزش کی خاطر جناح اسٹیڈیم اسلام آباد کا چکر لگتا ہے تاہم پچھلے ہفتے اسٹیڈیم میں موجود روشن خان اسکواش کورٹ جانے کا اتفاق ہوا۔

بچپن سے ہی اسکواش کھیلنے کا شوق تھا، جان شیر خان سے تعلق اسکول کے زمانے سے تھا۔ پشاور میں وہ ساتویں جماعت میں تعلیم کو خیرباد کہہ کر مستقل طور پر اسکواش میں مصروف ہو گئے تاہم میں بھی اپنے شوق کوپورا کرنے پشاور میں پاکستان ایئرفورس کے اسکواش کورٹس میں کھیلنے جاتا تھا، وہیں جان شیر خان پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرتے تھے۔ اس طرح میرا بھی جان شیر خان سے رابطہ رہتا تھا۔

بچپن کے اسی شوق کی خاطر میں اسلام آباد کے روشن خان اسکواش کورٹس میں جاکر کھیلتا رہا اور پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرتا رہا تاہم میں نے کبھی پیشہ ورانہ طور سے اسکواش نہیں کھیلا اور پچھلے دو تین سال سے مصروفیت کی وجہ سے اسکواش سے دور ہوگیا خیر یہاں یہ سب بیان کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ روشن خان اسکواش کورٹس سے تعلق صرف کھیل کی وجہ سے ہی تھا انسان کا کسی دوسرے انسان ، جگہ یاچیزسے کسی بھی طرح کا تعلق بن جائے تو اس کی اچھی یا بری حالت پر خوشی یا غم ضرور ہوتا ہے یہی حال میرا بھی روشن خان اسکواش کورٹس کے حوالے سے ہے کیونکہ اس عمارت سے میرا گہرا دلی لگاؤ ہے۔

اُس روز اسکواش کورٹس کی عمارت میں داخل ہوتے ہی میں حیران و پریشان اور افسردہ ہوگیا کہ میں اسی جگہ پر ہوں جہاں میں کبھی کھیلا کرتا تھا ۔ وہ روشنی، وہ مسکراتے ساتھیوں کے چہرے، وہ کورٹس کے اندر سے آنے والی گیند کی آواز، وہ لکٹری کے فرش پر کھلاڑیوں کے قدموں کی ٹاپ وہاں کچھ بھی نہ تھا صرف ویرانی ہی ویرانی تھی۔

میر تقی میر کہتے ہیں’’دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے۔۔۔ یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا ‘‘ ادھر ادھر نگاہ ڈالی کورٹس پتھر کے زمانے کی داستان سنا رہے تھے جب آپ عمارت کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوتے ہیں تو وہاں دو کورٹس ایک دوسرے سے جڑے بنائے گئے ہیں کورٹس کی تینوں دیواریں سیمنٹ جبکہ کورٹ میں داخلے والی دیوار اور دروازہ شیشے کا بنایا گیا ہے۔

صحن میں کھڑے ہوکر میں نے پہلے کورٹ کے اندر نظر گھومائی تو دیکھتا ہوں کہ کورٹ کا لکٹری کا فرش (ووڈن فلور) جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا ہے لکٹری کی پھٹیاں اپنی جگہ سے نکل کر اوپر کی جانب سراٹھائے شیشے سے باہر جھانک رہی تھیں دیواروں سے پینٹ اور سیمنٹ باہر نکل رہا تھا دیواروں میں سوراخ ایسے بنے تھے جیسے پرندوں نے چٹانوں میں گھونسلے بنا رکھے ہوں کورٹ میں لگا ایئرکنڈیشنر کے اوپر منوں مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی کورٹس کی چھت کی سیلنگ کے تختے نیچے کے طرف ایسے جھکے ہیں جیسے ابھی چھلانگ لگاکر فرش پر گر جائیں گے کورٹس کی تمام بتیاں روشنی سے محروم ہیں۔

شاید ان کو اسپورٹس بورڈ کے کسی اہلکار نے بتادیا کہ اس عمارت کا نام روشن خان ہے لہٰذا تمہاری روشنی کی کوئی ضرورت نہیں ہے ہو سکتا ہے کہ انتظامیہ کا یہ موقف ہو کہ عمارت روشن خان کی روح سے روشن ہو جائے وہاں قائم دوسرے کورٹس کی حالت بھی پہلے والے جیسے تھی وہاں چند قدموں پر تیسرا کورٹ بنایا گیا ہے وہاں دیکھا کہ صورت حال کچھ بہتر ہے اور دو شوقیہ کھلاڑی کھیل رہے ہیں تاہم اس کے فرش کی لکٹریاں بھی بری حالت میں تھیں دیواروں پر سوراخ موجود تھے اور چھت کی کافی بتیاں اندھیری رات کا منظر پیش کررہی تھیں۔

دروازے کی جانب شائقین کے لئے سو کے قریب اوپر کی جانب کرسیاں نصب کی گئیں ہیں تاہم کرسیوں پر مٹی کی تہہ جمی ہوئی تھی شاید کافی دنوں سے وہاں صفائی نہیں کی گئی تھی اسی طرح چھت کی سیلنگ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی جب پچھلی جانب چوتھے کورٹ میں گیا تو ہر طرف اندھیرا تھا کیوں کہ تمام بتیاں خراب تھیں وہاں عام دنوں میں بھی کھیل نہیں ہوتا وہ تین اطراف سے شیشے سے بنایا گیا ہے اور تینوں اطراف میں شائقین کے بیٹھنے کی جگہ کا انتظام ہے وہ کورٹ مقابلے کی غرض سے بنایا گیا تھا تاہم مجھے معلوم ہے کہ پچھلے کئی سالوں سے وہاں کوئی مقامی یا قومی سطح کے مقابلے بھی منعقد نہیں کرائے جاسکے یہی وجہ ہے کہ کرسیاں ٹوٹی ہوئی ہیں مٹی سے کرسیوں پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔

دیواریں اور چھت بھی شکایت کرتے ہیں کہ ہم سے سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے یہ تمام صورت حال دیکھ کر ایسا لگا جیسے یہ عمارت اسپورٹس بورڈ کا حصہ نہیں ہے اس عمارت سے کسی کو کوئی لگاؤ اور دلچسپی نہیں ہے شاید تبدیلی کا حصہ بننے والی وفاقی وزیر فہمیدہ مرزا کو بھی اس عمارت سے کوئی دلچسپی نہیں ہو اور مجھے یقین ہے کہ محترمہ ابھی تک اس عمارت میں داخل نہیں ہوئی ہونگیں حالانکہ ان کا دفتر روشن خان اسکواش کمپلیکس سے چند قدموں کے فاصلے پر ہے۔

عمارت کی خستہ حالی پر روشن خان کی روح بے چینی سے بھٹکتی ہوگی، وہ روشن خان جس نے 1957میں برٹش اوپن جیت کر ملک کا نام روشن کیا ان کے صاحبزادے جہانگیر خان نے اسی اور نوے کی دہائی میں دنیا پر اسکواش کے کھیل میں حکمرانی کی اور پاکستان کا جھنڈا سربلند کیا اسکواش کی عمارتوں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ آج ہم رینکنگ میں پہلے نمبر سے پیچھے جاکر شائد پچاسوے نمبر پر ہیں۔

حیرانی کی بات یہ ہے کہ روشن خان اسکواش کورٹ کی عمارت کے بالکل سامنے مصحف علی میر اسکواش کورٹ قائم کیا گیا ہے جہاں قومی اور بین الاقوامی سطح کے مقابلے منعقد کرائے جاتے ہیں کیونکہ وہاں کورٹس کی مسلسل اور مکمل دیکھ بھال کی جاتی ہے ہوسکتا ہے کہ اس کورٹ کی وجہ سے ان کو توجہ نہ دی جاتی ہو اصل میں مصحف علی میر اسکواش کورٹس کی دیکھ بھال پی اے ایف کی ذمہ داری ہے جبکہ روشن خان کی عمارت اسپورٹس بورڈ کی انتظامیہ کے پاس ہے یہی وجہ ہے کہ دونوں کی حالت میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔

امید ہے کہ وفاقی وزیر جلد ایک مستقل ڈی جی اسپورٹس بورڈ تعینات کرکے روشن خان اسکواش کورٹس کو کھیل کے قابل بنا ئیں گی ورنہ تبدیلی کا انتظار رہے گا۔

ٹاپ اسٹوریز