پاکستان کا تعلیمی نظام ایک گنے کی رس کی مشین

چند برس قبل ایک ڈاکیومینٹری کی تیاری کے سلسلے میں بلوچستان کے علاقے سو میانی جانے کا اتفاق ہوا۔ سومیانی کراچی سے کوئی 80 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ یہ کوئی زیادہ فاصلے پر بھی نہیں لیکن اس علاقے کی پسماندگی کو دیکھنے کے بعد رنج اور افسوس  کے علاوہ کچھ کیا بھی نہیں جاسکتا۔

ڈاکیومینٹری کے سلسلے میں وہاں کے مقامی رہائشیوں سے بات چیت کرنے کا موقعہ ملا، اس قصبے کے زیادہ تر لوگ ماہی گیری کے پیشے سے منسلک ہیں۔ ماہی گیر بھی اس ہی طرح کسمپرسی کا شکار ہیں جیسے  ہمارے ملک کے دیگر محنت کش۔اس وجہ سے ان کے  ظاہری حالات کوئی خاص اچھے نہیں تھے۔ تعلیمی اور عقلی حالات کا تو اللہ ہی حافظ تھا۔

ان کے درمیان ایک لڑکا ہمیں نظر آیا، وہ ظاہری طور پر بھی نہ صرف صاف ستھرا اور مختلف نظر آیا بلکہ بات چیت  بھی قدرے بہتر تھا۔ ہمیں امید کی ایک کرن نظر آئی کہ چلو اس پسماندہ علاقے میں کوئی تو ہے جو شاید اس صنعت کو آگے لے جائے۔

ماہی گیری سے دنیا بھر کے بیشتر ممالک کثیر زرمبادلہ کما رہے ہیں۔ ہم نے اس نوجوان سے بات شروع کی، پتہ چلا کہ یہ نوجوان انٹر پاس ہے اور اس بندرگاہ کے آس پاس رہنے والوں میں واحد شخص ہے جو اس درجے تک پڑھ سکا ہے۔ یہ نوجوان اس لئے بھی منفرد تھا کہ اس نے نہ صرف 12 جماعتیں پاس کیں بلکہ اس نے کالج لاہور سے مکمل کیا۔ یہ بات اس علاقے کے لئے ایسی ہی تھی جیسے کوئی ہارورڈ یا آکسفورڈ سے ڈگری لے آئے۔

بات چیت شروع ہوئی، یہ جان کر خوشی ہوئی کہ نوجوان انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کو اچھی طرح سے استعمال کر سکتا ہے۔ انگریزی اور اردو پر بھی اس نوجوان کی گرفت بہتر تھی۔ اس کا یہ امر ماہی گیری کی جدید تحقیق پڑھنے اور اپنے آس پاس موجود لوگوں کو سمجھانے میں کلیدی کردار ادا کرسکتا تھا۔

اس کے علاوہ نوجوان کے والد کی کئی کشتیاں تھیں، غرض ہر چیز اس نوجوان کو اس علاقے کی ترقی میں کردار ادا کرنے میں اور اپنے والد کے کاروبار کو ترقی دینے کے لئے سازگار تھی لیکن جب ہم نے اس سے یہ سوال کیا کہ ماہی گیری کے شعبے کی ترقی کے لئے آپ اپنا کردار کیسے ادا کر رہے ہیں تو جو جواب آیا وہ ہمارے تعلیمی نظام کے لئے طمانچہ ہے۔

جواب تھا کہ ماہی گیر تو جاہل اور غریب لوگ ہیں میں نے تو انٹر پاس کر لیا ہے۔ سرکاری نوکری ڈھونڈ رہا ہوں چاہے کلرکی ملے یا کانسٹیبلری۔ اس جواب کے بعد میں آپ سب سے سوال کرنے پر مجبور ہوں کہ کیا یہ نظام واقعی ملک کے لئے مفید فرد پیدا کر رہا ہے یا گنے کی رس کی مشین کی طرح جوس نکال رہا ہے۔ جوس بھی ایسا جو بد ذائقہ ہے۔

دنیا بھر میں تعلیمی ادارے نہ صرف قومی ثقافت اور شناخت کو بچوں کے ذہنوں میں کنندہ کرتے ہیں بلکہ مقامی خصوصیات کو بھی اتنی ہی تندہی کے ساتھ اجاگر کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے نظام تعلیم کو فیکٹری کے طرز پر چلایا جاتا ہے، ہر بچے کو ایک ہی سانچے سے گزرنا ہوتا ایسی صورت میں بچے کی حقیقی صلاحیتوں کو سمجھنا مشکل ہی نہیں بلکہ تقریباً ناممکن ہے۔

اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ ملک کا ہر بچہ پی ایچ ڈی کر لے۔ پاکستان کو ہر شعبے میں باصلاحیت اور قابل لوگوں کی ضرورت ہے۔ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام میں اتنی سکت نہیں کہ وہ یہ ضرورت پوری کر سکے۔ طبقاتی نظام کی سب سے بڑی خرابی یہی ہے کہ اس میں چند پیشوں کے علاوہ باقی تمام پیشے کمتر سمجھے جاتے ہیں۔ اس بنیاد پر والدین کوشش کرتے ہیں کہ بچے ان پیشوں سے منسلک ہوں جن کا معاشرے میں ایک نام نہاد نام ہو، بھلے بچے کا رویہ اس سے مطابقت رکھتا ہو یا نہ ہو۔ ایک ترقی یافتہ معاشرے میں ہر پیشے کی اپنی اہمیت اور افادیت ہوتی ہے۔ ہمارا یہ سمجھنا اور حکومت کا یہ سمجھانا انتہائی ضروری امر ہے۔

پاکستان میں ایک قومی نصاب ہونا چاہئیے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس میں مقامی رنگ بھی ہونا چاہئے۔ جیسے بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں بچوں کو ماہی گیری کے بارے میں بچپن سے آگاہ رکھنا چاہئے، سرگودھا اور چکوال کے بچوں کو باغبانی کے فوائد بتانے چاہئیں غرض ہر علاقے کی مقامی خصوصیت سے بچے آگاہ ہوں تاکہ جب وہ بڑے ہوں تو اس علاقے کے کارآمد فرد بن سکیں اور صرف نوکری تلاش کرنے کی دھن میں نہ لگ جائیں ۔

اسکولوں کو خودمختاری دینی چاہئے، مقامی سطح پر اسکول بورڈز کا قیام عمل میں آنا چاہئے جس میں مقامی حکومتوں کے نمائندوں کے علاوہ والدین کی بھی نمائندگی ہونی چاہئے، ہیڈماسٹر یا پرنسپل کو اسکول کے معاملات میں کسی حد تک خودمختاری دینی چاہئے، صوبوں اور مقامی حکومتوں کے درمیان رابطے کے لئے ایم بی اے ایجوکیشن کئے ہوئے قابل ای ڈی او تعینات کرنے چاہئیں۔

ای ڈی او کا مقابلے کا امتحان فیڈرل پبلک سروس کے ذریعے میرٹ کی بنیاد پر ہونا چاہئے۔ سی ایس ایس میں پوسٹ آفس اور ریلوے کا تو گروپ ہے لیکن ملک کی ریڑھ کے ہڈی تعلیم کا کوئی گروپ نہیں۔ حکومت کو فی الفور تعلیمی گروپ کا قیام عمل میں لانا چاہئیے۔ قومی تعلیمی اکیڈمی اور ضلعوں کی سطح پر اساتذہ کی ٹریننگ اکیڈمیوں کی تعمیر کی جانی چاہئیے۔ ملک بھر کے نصاب کو جدید خطوط پر مرتب کرنا چاہئیے۔ حساب اور سائنس کے مضامین پر خصوصی توجہ دینی چاہئیے

اگر حکومت واقعی تبدیلی کی خواہاں ہے تو ملک کے تعلیمی نظام کو فوری طور پر تبدیل کرے اور طبقاتی نظام کے خاتمے کے اقدامات اٹھائے ورنہ باقی تمام اقدامات کی حیثیت کاسمیٹک سرجری سے زیادہ کچھ نہ ہوگی۔


ہم نیوز یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

ٹاپ اسٹوریز