دوبچوں کی ہلاکت، حکام بالاہوش کے ناخن لیں

گزشتہ دنوں کراچی میں مضر صحت کھانا کھانے سے 2معصوم بچے جاں بحق ہوگئے ۔ اس افسوسناک واقعے نے ہر ایک کو نہ صرف اُداس بلکہ خوفزدہ بھی کردیا۔ یہ واقعہ شہر کے پوش علاقے میں واقع امیوزمنٹ پارک میں تفریح، چاکلیٹس کھانے، بعد ازاں ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے کے بعد پیش آیا ۔

میڈیا پر خبریں آنے کے بعد فوری طور پر محکمہ جاتی کارروائی عمل میں لائی گئی ۔سانحے کے اگلے دن سندھ فوڈ اتھارٹی کی ٹیم نے ریسٹورنٹ پر چھاپہ مارکر کئی کلو زائد المیعاد گوشت، شربت کی سینکڑوں بوتلیں اور دیگر اشیاءآمد کرلیں۔

تادم تحریر یہ عقدہ حل نہیں ہوا ہے کہ بچو ں کی موت کی اصل وجہ کیا ہے ؟ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق جس دن بچوں اور ان کی والدہ نے ریسٹو رنٹ سے کھانا کھایا اسی دن تین سو کے قریب دیگر افراد نے بھی اس ریسٹورنٹ سے کھانا کھایا، واقعے کے بعد شہر کے تمام ہسپتالوں کی چھان بین کی گئی لیکن فوڈ پوائزن کا کوئی کیس نہیں مل سکا ۔
بچوں کی ہلاکت کا معمہ بھی حل ہوہی جائے گا اور قوی اُمید ہے کہ ان کی ہلاکت کے پیچھے ریسٹورنٹ کے کھانے کا ہاتھ نہیں ہوگا لیکن اس سانحے کے نتیجے میں ملک کے اس مشہور و معروف ریسٹورنٹ میں عوام کو معیاری اور تازہ کھانا کھلانے کی دعوے داری کی قلعی کھل گئی ۔

یاد رہے کہ عوام کی اکثریت کسی بھی قسم کی بیماری سے بچنے یا صحت پر نقصان نہ اُٹھانے کی مقصدیت کے تحت بڑے اور نامور فوڈ چینوں اور ریسٹورنٹس کو ہائی جینک اور معیاری کھانے پیش کئے جانے کے عوض ہنسی خوشی ہزاروں روپے کے بل کی ادائیگی کردیتے ہی، ایسے لوگوں کیلئے یقینا یہ لمحہ فکریہ ہے۔

سندھ میں جانچ پڑتال کے حوالے سے قائم لیبارٹری میں سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، نہ کوئی قابل ذکر مشین ہے اور نہ ہی کیمیکلز۔یہ لیبارٹری کسی بھی قسم کے تجزیات کے قابل نہیں ہے ۔یاد رہے کہ اسی محکمے نے شرجیل میمن کے کمرے سے ملنے والی شراب کی بوتلوں کی جانچ پڑتال کی تھی اور اس ضمن میں ان کی پرفارمنس سب کے سامنے ہے ۔

تازہترین واقعے کے حوالے سے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ بچوں کی ہلاکت کے حوالے سے کیمیکل کے نمونے مقامی لیبارٹریز اور لاہور میں پنجاب فارنزک سائنس ایجنسی کو بھیجے گئے ہیں اب دیکھئے کہ کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

سخت عوامی دباﺅ میں آئے ہوئے ڈائریکٹر فوڈ اتھارٹی سندھ ابرار شیخ ریسٹورنٹس کے ایسے افعال کی سختی سے مذمت کرتے نظر آرہے ہیں ۔ان کا موقف ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں محکمے کی جانب سے14فوڈ آﺅٹ لیٹس کے خلاف ایف آئی کاٹی جاچکی ہیں جن پر اس وقت قانونی کارروائی کا عمل جاری ہے، 39کو سیل کیا جاچکا ہے، شہر کے 560 ریسٹورنٹس کو معاملات ٹھیک کرنے کے لئے نوٹس جاری کئے جاچکے ہیں جبکہ اب تک 16لاکھ 10ہزار اب تک جرمانے عائد کئے جاچکے ہیں۔

واقعے کے بعد اسپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے ڈاکٹر سہراب خان سرکی، سنجے پاروانی اور گنہور خان اصرار پر مبنی ایک سہہ رکنی پارلیمانی کمیٹی قائم کرتے ہوئے فوڈ اتھارٹی کی کڑی نگرانی کا حکم جاری کیا ہے ۔ہوسکتا ہے کہ یہ کمیٹی کچھ ”کردکھائے “ لیکن یہ مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔

ملاﺅٹ اور غیر معیاری اشیاءکی فروخت ایک ایسا ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں وبا ءکی طرح پھیلاہواہے۔ زائد المعیاد اشیاءخوردنوش اور و دیگر اشیاءمیں ملاوٹ قیمتی انسانی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے لیکن یہ قبیح کھیل انتہائی کھلے عام جاری ہے۔ایسے منفی عناصر اپنے تھوڑے سے نفع کے لئے نسلوں کی تباہی کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔

اس ضمن مین صورتحال کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی۔کچھ عرصے سے مردار جانور، گدھے اور کتے کا گوشت عوام کو کھلانے کی خبریں بھی تواتر سے منظر عام پر آرہی ہیں جبکہ گاہے بگاہے بے شمار ریسٹورنٹس اور فوڈ چین کے حوالے سے گندگی، غلاظت اور ملاوٹ والی اشیاءعوام کو دیئے جانے کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیںلیکن کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، فوڈ اتھارٹی خواب خرگوش کے مزے لوٹتی رہتی ہے انہیں ہوش تب آتا ہے جب کوئی بڑا حادثہ وقوع پذیر ہوجاتا ہے۔

اس حوالے سے میڈیا نے ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہے۔ کبھی کسی نے تو کبھی کسی نے غیر معیاری اشیاءفروخت کرنے والوں کے خلاف کام کرتے ہوئے ایسے قبیح افعال انجام دینے والوں کو بے نقاب کیاگیا ہے ۔کسی نے نارتھ کراچی میں موجود غیر معیاری کولڈڈرنک تیار کرنے والی فیکٹری میں چھاپہ ماراتو کسی نے ٹماٹو کیچپ میں سب کچھ ہے سوائے ٹماٹر کے ‘کوثابت کیاجبکہ کسی نے معروف برانڈز کی بوتلوں میں جعلی اور مضر صحت سوڈا واٹربنائے جانے کا راز افشاں کیا لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی نتیجتاً اس وقت ہماری عوام کو جعلی مصالحہ جات، شیمپو، ٹماٹو کیچپ،جام‘ جیلی، صابن، میک اپ کی اشیاءسمیت اشیاءضرورت کی جعلی گندگی اور غلاظت میں لپٹی ہوئی ہر چیز فروخت کی جارہی ہے یہاں تک کہ مٹھائیاں بھی جعلی اور مضر صحت اشیاءسے بنائی جارہی ہیں لیکن ذمہ داران خاموش ہیں ۔

اسی قسم کی صورتحال اب سے کچھ عرصہ قبل ایک مشہور بین الاقوامی فوڈ چین کے حوالے سے بھی درپیش آئی، اپنی گرتی ہوئی فروخت کو دیکھتے ہوئے فاسٹ فوڈ چین نے اپنے باورچی خانوں کو عوام کیلئے کھول دیا یعنی جو چاہے جاکر ان کے باورچی خانے میں جاکر نہ صرف تیاری کے مراحل دیکھ سکتا ہے بلکہ اشیاءخوردونوش کا جائزہ بھی لے سکتا ہے۔ دیگر ریسٹورنٹس کو بھی شفافیت کا عمل اختیار کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنے چاہئے جو ان کی ساکھ کو بچانے کا سبب بنیں۔

اگر معاشرے کو صحت مند بنانا مقصود ہے تو ایسے افراد کے خلاف بلاتفریق کے موثر کارروائی کرنا ہو گی۔اس مقصد کے تحت فوڈ اتھارٹی میں ایسے ایماندار افسران کی تعیناتی عمل میں لائی جانی چاہئے جو غیرجانبدار ہوکر عوام کی جانوں سے کھیلنے والوں کے خلاف کارروائی پرعزم ہوں ۔

خالصااشیاءخوردونوش، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹس میں معیاری اشیاءکی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے نہ صرف اہم اقدامات کئے جائیں بلکہ گاہے بگاہے چھاپے مار مہم بھی چلائی جائے ۔خوراک کے نام پر مضر صحت اور غیر معیاری اشیاءفروخت کرنے والوں سے کسی قسم کی کوئی رعایت نہیں برتی جانی چاہیے ۔

ایسے تمام ملزمان اور ان کے سہولت کاروں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے حکومتی سطح پر انتہائی موثر اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہے۔


ہم نیوز یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

ٹاپ اسٹوریز