سرکلر ریلوے وقت کی اہم ضرورت

اس وقت سپریم کورٹ کی نظریں چاروں جانب ہیں، وطن عزیز میں کہاں کیا مسئلہ ہے اور اسے کیسے حل کیا جاسکتا ہے اس پر غورو خوص ہورہا ہے، بتدریج یہ عمل تیزی اور مزید شفافیت کی جانب مائل ہے۔

اسی سپریم کورٹ نے حال ہی میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اور ریلوے کی زمینوں سے قبضہ چھڑانے کا حکم جاری کیا ہے۔سپریم کورٹ نے ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے تمام علاقوں سے ریلوے لائنز کلیئر کرائی، کے ایم سی اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے بوگیاں تیار کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے مقامی انتظامیہ ریلوے کی مدد سے روٹ کا تعین کرے گی ۔

اعلیٰ عدالت نے سیاحتی مقاصد کیلئے صدر سے اولڈ سٹی ایریا تک ٹرام لائن کی بحالی کا بھی حکم دیا۔ گزشتہ دنوں تجاوزات کے حوالے سے اہم فیصلے کئے گئے جن پر برق رفتاری سے کام کیا جارہا ہے، اس فیصلے کے نتیجے میں آج ہم کراچی کی ان عمارتوں کو دیکھنے کے قابل ہوئے ہیں جنہیں تجاوزات نے ہم سے چھپا رکھا تھا۔

اس کے بعد عدالت کی جانب سے دوسرا بڑا حکم سرکلر ریلوے کے حوالے سے آیا جس نے ایک جانب عوام میں خوشی کی لہر دوڑا دی تو دوسری جانب تشویش۔

خوشی اس لئے کہ سفری سہولیات کی عدم دستیابی اس شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ہے، سرکلر ریلوے کی بحالی اس مسئلے کا سب سے احسن حل ہے جبکہ تشویش اس لئے کہ اس حل تک پہنچنے کیلئے بے شمار تجاوزات راہ میں حائل ہوں گی جنہیں دور کرنا یقیناً دشوار گزار مرحلہ ہے،گو اس وقت شہر میں گرین لائن منصوبے کا تعمیراتی کام تیزی سے جاری ہے اور اس سے مخصوص روٹ کے مسافروں کو کافی سہولت ہوجائے گی لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر یہ انتہائی ناکافی ہے۔

سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے کی بحالی کےساتھ ساتھ ریلوے کی زمین پر سے تجاوزات ختم کرانے کا حکم بھی دیا ہے جس کے بعد سرکلر ریلوے کی اراضی واگزار کرانے کیلئے آپریشن کی تیاریاں کی جا رہی ہیں ۔ان اطلاعات کے ساتھ ہی کراچی کے مختلف علاقوں میں ریلوے انتظامیہ کی جانب سے سرکلر ریلوے کی زمین لیز پر دیئے جانے کی خبریں سامنے آنے لگیں،شنیدن ہے کہ ریلوے حکام نے سرکلر ریلوے لائن پر قائم تجاوزات کی لیز سے متعلق ڈپٹی کمشنر ساﺅتھ اور متعلقہ محکمے کو خط لکھا ہے جس کا متن کچھ یوں ہے کہ سرکلر ریلوے کی زمین پٹرول پمپ، پارکنگ اور گودام کیلئے لیز پر دی گئی گی ،لیز پر دی گئی زمینیں ضلع وسطی، جنوبی سمیت دیگر اضلاع میں واقع ہیں جن میں وزیر مینشن، گلبائی، لیاقت آباد اور پاپوش نگر کے علاقے قابل ذکر ہیں۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ریلوے ٹریک پر جگہ ،جگہ تجاوزات ، جھونپڑ یا ں اور غیر قانونی تعمیرات ہیں جنہیں واگزار کرنے کیلئے حکومت کو 21 کلو میٹر ٹریک سے تجاوزات کا خاتمہ کرانا ہوگا یعنی ضلع شرقی میں 20 کلو میٹر ٹریک میں سے 11 کلو میٹر پر ،ضلع وسطی میں 7 میں سے 6 کلو میٹر پر ،ضلع غربی میں ساڑھے11 میں سے ڈھائی کلو میٹر ٹریک پر قبضہ ہے، ضلع جنوبی کے ساڑھے چارمیں سے ڈیڑھ کلو میٹر ٹریک پر تجاوزات قائم ہیں۔یاد رہے کہ 1999ءمیں بند ہونے والی سرکلر ریلوے کے ٹریک پر 2005 ءتک صرف چند مقامات پر ہی تجاوزات تھیں ،بعد ازاں قبضہ مافیا کی جانب سے لیاقت آباد، نارتھ ناظم آباد، گلشن اقبال، ناظم آباداور گلستان جوہر سے گزرنے والے ٹریک پر تجاوزات قائم کرادی گئیں،جن میں فرنیچر، غیر قانونی دکانیں، گودام مختلف کارخانے، مویشی منڈیاں، رکشہ اسٹینڈ، گاڑیوں کے ورکشاپ، کباڑ بازار اور رہائشی کالونیاں شامل ہیں۔ گلشن اقبال 13 ڈی، بھنگوریا گوٹھ اور پاپوش میں تو ریلوے ٹریک لاپتہ ہی ہو گیا ہے اور کئی کلومیٹر علاقے پر اب کاروباری مراکز قائم ہو چکے ہیں۔

نارتھ ناظم آباد ٹریک پر کانٹے والے ملازم کے کوارٹرپر قبضہ کر کے تندور قائم کردیا گیا بعض ریلوے ٹریکس پر سگنلز آج بھی آویزاں ہیںجبکہ نارتھ ناظم آباد، لیاقت آباد اور گلشن اقبال ریلوے ٹریکس پر سے پھاٹک غائب ہوچکے ہیں، مختلف علاقوں میں ٹریکس ختم کرکے کچی سڑکیں بنائی جاچکی ہیں جبکہ ریلوے ٹریک کو کچرا کنڈیوں کے طور پر بھی استعمال کیا جارہا ہے، بعض ٹریکس جرائم پیشہ اور منشیات کے عادی افراد کی آماجگاہیں بن چکے ہیں۔

یاد رہے کہ حکومت سندھ کو سرکلر ریلوے منصوبے کیلئے 360 ایکڑ زمین درکار ہے، جس میں سے 70 ایکڑ پر قبضہ ہے جہاں 4500کے قریب مکانات اور 3000دیگر تعمیرات موجود ہیں۔

سرکلر ریلوے کا منصوبہ 1969 ءمیں پاکستان ریلوے کی جانب سے شروع کیا گیا تھاجس کے تحت ڈرگ روڈ سے سٹی اسٹیشن تک خصوصی ٹرینیں چلائی گئیں ، اس اس سہولت سے سالانہ 60لاکھ افراد مستفید ہوا کرتے تھے ۔سرکلر ریلوے کی افادیت کے پیش نظر 70سے 80 کی دہائی کے درمیان کراچی سرکلر ریلوے کے تحت روزانہ 24 ٹرینیں لوکل لوپ ٹریک اور 80 مین ٹریک پر چلائی گئیں۔ کراچی سرکلر ریلوے لائن ڈرگ روڈ اسٹیشن سے شروع ہوکر لیاقت آباد سے گزر کر سٹی اسٹیشن کراچی پر ختم ہوتی تھی جبکہ مرکزی ریلوے لائن پر بھی کراچی سٹی اسٹیشن سے لانڈھی اور کراچی سٹی اسٹیشن سے ملیر چھاونی تک ٹرینیں چلاکرتی تھیں۔1992ءمیں میں خسارے کو بنیاد بناکر یہ سہولت بند کردی گئیں جبکہ درحقیقت ہوا کچھ یوں کہ ریلوے کی وزارتیں ٹرانسپورٹ سے منسلک افراد کے ہاتھوں میں آگئیں یوں 1999ءمیں پرائیویٹ ٹرانسپورٹ مافیا اور رشوت کے زہر آلود نظام کی عفریت نے اس منصوبے کو نگل لیا۔آنے والے سالوں میں اس منصوبے کی بحالی کیلئے کئی بار اقدامات کئے جانے کا شور اُٹھا لیکن نتیجہ ندارد۔

2005 ءمیں جاپان انٹرنیشنل کوآپریشن ایجنسی (جائیکا) نے کراچی سرکلر ریلوے کیلئے تقریبا ڈھائی ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی پیشکش کی تاہم جائیکا نے اس منصوبے کو اپنی زیر نگرانی سخت مانیٹرنگ سے مشروط کردیا جو ظاہر ہے کہ بدعنوانوں کے رہتے تو ممکن ہی نہ تھا۔آنے والے سالوں میں ریلوے کانظام مزید ابتر ہوا اور مہران ایکسپریس اور شاہ لطیف بھٹائی ایکسپریس بھی بند کردی گئیں جو دن کے مختلف اوقات میں کراچی سٹی اسٹیشن سے میرپورخاص تک چلا کرتی تھیں ان ٹرینوں کی وجہ سے سے حیدرآباد، ٹنڈوجام ، ٹنڈوالہٰیار اور میرپورخاص کے لوگوں کو بہت آرام تھا ، ان ٹرینوں سے سب سے زیادہ فائدہ ان ملازمت پیشہ افراد کو تھا جو روزآنہ حیدرآباد سے کراچی اور کراچی سے حیدرآباد جایا کرتے تھے کیونکہ ایک ٹرین صبح میرپورخاص سے کراچی کیلئے جبکہ دوسری اسی وقت کراچی سے میرپورخاص کیلئے چلتی ان ٹرینوں کی بندش کا مقصد کراچی سے میرپور خاص چلائی جانے والی کوچز کے مالکان کو نوازنا تھا۔

2013 ءمیں سابق وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کیلئے 2.6 ملین امریکی ڈالر کے منصوبے کی منظوری دی جس میں کئی نئے اسٹیشن اور ان اسٹیشنوں کے مطابق کئی نئے بس روٹس چلانے کا اعلان بھی کیا گیالیکن ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر نہ جانے کن وجوہات کی بنا ءپر یہ منصوبہ کھٹائی کا شکار ہوگیا۔سابق وزیراعظم نواز شریف کی خصوصی ہدایات پر سرکلر ریلوے کو سی پیک منصوبے کا حصہ بناتے ہوئے اسے تین برسوں میں تکمیل تک پہنچانے کا عندیہ دیا گیا اس منصوبے پر تقریباً 270 ارب روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا ۔

وزارت پلاننگ کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے کیلئے 43 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک پچھایا جائے گا۔یہ منصوبہ حکومت سندھ اور چین کو مکمل کرنا تھا جبکہ اس منصوبے کی نگرانی وزارت پلاننگ کی ذمہ داری تھی۔سرکلر ریلوے منصوبے کے تحت اوسطا ایک سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر کل 24 اسٹیشن بنائے جائیں گے۔سرکلر ریلوے منصوبے کے تحت اوسطا ایک سے آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر کل 24 اسٹیشن بنائے جانے کی بات کی گئی تاہم یہ منصوبہ بھی التواءکا شکار ہوگیا۔ اب سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں حکم نامہ جاری کیا ہے ،تجاوزات کے خلاف کامیاب آپریشن کو دیکھتے ہوئے اس بات کی اُمید انتہائی روشن ہے کہ سپریم کورٹ کے اس حکم پر بھی عمل درآمد ہوگا اور کراچی کی کم از کم سات لاکھ عوام کوسرکلر ریلوے کی صورت میں سفری سہولیات میسر آسکیں گی۔

کراچی دنیا کے گنجان ترین شہروں میں سے ایک ہے، جس کی موجودہ آبادی (محتاط اندازے کے مطابق) تقریباً دو کروڑ 51 لاکھ ہے جو ٹوکیو، نئی دہلی، ممبئی، نیویارک، میکسیکو سٹی، منیلا اور جکارتہ سے زیادہ ہے۔

کراچی کی یہ آبادی 2030ءتک 3کروڑ 34 لاکھ تک پہنچنے کا امکان ہے لہٰذا ایک جانب سرمایہ کاری کے بہترین مواقع موجود ہیں تو دوسری جانب اس شہر کے باسیوں کی سفری مشکلات کو دور کرنے کیلئے بھی وقت کا تقاضا ہے کہ سرکلر ریلوے جیسے منصوبوں کا آغاز کرکے کراچی کی روشنیوں کو بحال کیا جائے، ویسے ایک اطلاع کے مطابق 24نومبر سے کراچی سے سکھر تک کیلئے سکھر ایکسپریس چلائی گئی ہے جس سے یقینا لوگوں کو فائدہ پہنچے گا ۔

اس وقت سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شہر میں یومیہ سفر کرنے والوں کی تعداد 7 لاکھ سے زائد ہے، 24 فیصد لوگ پبلک ٹرانسپورٹ، 91 فیصد موٹر سائیکل، 1.7 فیصد کانٹریکٹ کرئیرز، 21 فیصد ذاتی گاڑیوں اور 8 فیصد لوگ پک اینڈ ڈراپ کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ ان 7 لاکھ لوگوں کیلئے 6 ہزار سے زائد بسیں تقریباً 300 روٹس پر چلتی ہیں، ان میں سے 85 فیصد بسیں پرانی اور ناقص ہیں، یوں شہر کے 42 فیصد مسافروں کا بوجھ پبلک ٹرانسپورٹ کو اٹھانا پڑتا ہے، اس مسئلے کا حل موثر ماس ٹرانزٹ سسٹم ہے اور کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں ذرائع نقل و حمل کسی بھی ملک کی ترقی کا ایک اہم زریعہ ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں ذرائع نقل و حمل میں ریلوے نظام کو بہت اہمیت حاصل ہے اس حوالے سے گذشتہ دہائی کے دوران تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک کا مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان ممالک نے ریلوے نظام اور خاص طور پر سرکلر ریلوے پر بہت زیادہ توجہ دی جن میں چین،بھارت، تھائی لینڈ،ملائیشیائ، انڈونیشیاء، امریکہ، جرمنی، جاپان اور سنگاپور شامل ہیں ان تمام ممالک نے سرکلر ریلوے پر بھر پور توجہ دی جس کی وجہ سے ان ممالک کی ترقی میں اس نقل و حمل کے ذرائع نے بہت کلیدی کردار اد کیا جبکہ پاکستان میں بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔

اس منصوبے کی تکمیل کی راہ میں تجاوزات ،قبضہ مافیا اور پرائیوٹ پبلک ٹرانسپورٹ نظام حائل ہے جن سے نمٹنے کیلئے اب سپریم کورٹ سینہ بکف ہے ۔ایک جانب جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک اپنے شہریوں کو انڈرگراونڈ ریلوے اور فاسٹ ریلوے کا نظام دے رہے ہیں تو دوسری جانب کراچی کی دو کروڑ سے زائد کی آبادی پبلک ٹرانسپورٹ اور سرکلر ریلوے کا خواب ہی آنکھوں میں سجائے بیٹھی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اُن کے یہ خواب کب پورے ہوتے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز