خنزیروں کا دوست انسان

’سور کاٹ لے گا، خیال کریں، پیچھے ہٹیں‘، یہ میرے وہ الفاظ تھے جب میں نے نصف شب میں سڑک کنارے ایک شخص کے پاس سور کو آتے دیکھا۔

اس معاملے پر آگے چل کر بات کرتے ہیں، پہلے آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ روزانہ رات بارے بجے کے بعد آفس سے چھٹی کر کے جیسے ہی کشمیر ہائی وے کا راستہ ناپتے ہوئے گھر کے لیے نکلتا ہوں تو راستے میں شکر پڑیاں سے کچھ ہی پیچھے ایک مقام پر چار پانچ سور (خنزیر) اور گیدڑ اکھٹے مٹر گشت کرتے ہوئے ملتے ہیں۔

کئی بار سوچا کہ آخر وفاقی پولیس او سی ڈی اے ان کے خاتمے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کرتے؟ یہ روزانہ اہم شاہراہ پر کھڑے ہوتے ہیں اور کسی کو نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں، ان سوروں کی وجہ سے اسی اسلام آباد کی شاہراوں پر ٹریفک حادثات بھی اپنی آنکھوں سے کے سامنے دیکھ چکا ہوں جس کے باعث کئی لوگ زخمی بھی ہوئے۔

اکثر بیشتر یہ سور اسی شاہراہ یعنی کشمیر ہائے وے پر ہی کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور کئی بار ذہن میں سوال آیا آخر یہ سور اسی مقام پر آکر ہی کیوں کھڑے ہوتے ہیں؟ آگے پیچھے کیوں نہیں جاتے۔ آج یہ گتھی اس وقت سلجھی جب میں اپنے آفس سے نکلا اور ٹھیک اسی مقام پر جہاں سور کھڑے ہوتے ہیں وہاں پر ایک ٹیکسی رکی دیکھی اور ایک شخص کو سڑک کنارے پر اترے دیکھا، اپنی بائیک روکی اور زور دار سے آواز دی کہ بھائی جان کیا کر رہے ہیں دیکھ نہیں رہے کہ کچھ ہی فاصلے پر سور کھڑے ہیں جو آپ کی طرف بڑھ رہے ہیں، وہ آپ کو نقصان پہنچائیں گے، جلدی اپنی گاڑی میں بیٹھ جائیں۔

وہ شخص میری آواز سن کر مسکرایا اور کہا کہ میں ان ہی کے لیے رات کے اس پہر نکل کر آیا ہوں، میں ان کے لیے کچھ کھانے کے لیے لایا ہوں یہ بہت بھوکے ہوں گے، دن بھر کچھ کھانے کو نہیں ملا ہوگا، اتنے میں اس شخص نے کار سے کم و بیش 20 کلو کے قریب سیب نکالے اور ان سوروں کی طرف اچھال دئیے۔

میرا گمان ہے کہ وہ شخص اس سے پہلے شاید گوشت بھی ان سوروں کے لیے پھینک چکا تھا، کیوں کہ سور کچھ کھاتے ہوئے مصروف دکھائی دے رہے تھے جب کہ سیب میری آنکھوں کے سامنے پھینکے تھے۔

خیر یہ منظر دیکھ کر میں حیرت میں ڈوب گیا، آئے اللہ تو کتنا عظیم ہے ہر شے کے  لیے رزق کا اسباب مہیا کرتا ہے۔ کئی انسان کتوں کو لیکر ان سوروں کا شکار کرتے دکھائی نظر آتے ہیں اور کئی ان کی بھوک کا بھی خیال کرتے ہیں۔ بس سوچ اور زوایے کا فرق ہے۔

ٹاپ اسٹوریز