امریکی سفیر کے اعزاز میں عشائیہ!

سابق سینیٹر محمد انور بیگ نے پاکستان کے لئے امریکہ کے نئے سفیر پال جوئنز اور ان کی اہلیہ کیتھرین جوئنز کے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں امریکی سفارت خانے کے اہلکاروں کے علاوہ اسلام آباد میں مقیم مختلف ممالک کے سفارت کاروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔عشایے کی اس دعوت میں مجھ سمیت کئی صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ مہمانوں کی غیر رسمی گفتگو کا موضوع عمران خان کے سو دن تھے کیونکہ سفارت کار صحافیوں سے معلومات لینا چاہ رہے تھے کہ پاکستانی عوام اور میڈیا عمران خان کی حکومت کے بارے میں کیا تاثرات رکھتے ہیں۔ جن شخصیات سے میری بات ہوئی وہ سب اس بات پر زور دے رہے تھے کہ وزیراعظم عمران خان کا اقتصادی ایجنڈا اچھا ہے اگر وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو ملک کی مالی اور معاشی صورت حال میں بہتری کی گنجائش نکل آئے گی۔ چند محترم صحافی بھائیوں کا خیال تھا کہ عمران خان کے پاس تجربہ کار اقتصادی ٹیم کی کمی ہے جس کی وجہ سے سو دن کے نتائج قابل تعریف نہیں رہے۔ خیر میری ایک امریکی سفارت کار کے ساتھ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر بات ہوئی انہوں نے کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بہت پرانے اور قریبی ہیں امریکہ پاکستان کو خطے کا اہم ترین ملک سمجھتا ہے اور خاص طور سے افغانستان میں پائیدار امن اور ترقی پاکستان کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ میں نے سوال کیا کہ مشکلات کہاں ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا کہ امریکہ افغانستان کے حالات کو درست کرنے کے لئے پاکستان سے مدد چاہتا ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ کس طرح کی مدد درکار ہے یقیناً افغان طالبان کو مذاکرات کے لئے راضی کرنے کے حوالے سے مدد درکار ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو افغانستان میں بھارت کے کردار کے حوالے سے پاکستان کی تشویش اور تحفظات سے آگاہ کیا تاہم اس سے زیادہ بات کرنے سے گریز کیا جب کہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے بارے میں امریکہ اب کوئی خاص پرجوش دکھائی نہیں دیتا۔ لگتا ہے کہ امریکہ نے حقانیوں کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف کو آہستہ آہستہ تسلیم کرنا شروع کردیا ہے جب کہ پاکستان متعدد بار اس حقیقت کو بیان کرچکا ہے کہ فاٹا کا اکثرعلاقہ ہر قسم کے دہشت گردوں سے پاک کیا جاچکا ہے اور اس کام کے لئے پاکستان کو بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ اب بھی بچے کھچے دہشت گرد پاکستانی فوج کے جوان، افسروں اور سپاہیوں کو نشانہ بناتے ہیں جس کی وجہ سے کئی ملکی دفاع کی خاطر شہادت کا رتبہ پاچکے ہیں۔
جب سفارت کار سے پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے امریکی مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی تو جواب ملا کہ امریکہ اس منصوبے کے خلاف نہیں تاہم وہ اس میں شفافیت چاہتا ہے کہ چین کی سرمایہ کاری اور باقی امداد کے اندر شفافیت ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ امریکہ اس سے قبل یہ بیان دے چکا ہے کہ وہ پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کے قرضوں کو چین سے لئے گئے قرضوں کی ادائیگی پر ہرگز خرچ نہیں کرنے دے گا تاہم بعد میں وضاحت کی کہ اگر پاکستان آئی ایم ایف سے نیا پروگرام شروع کرنا چاہے تو امریکہ اس کی مخالفت نہیں کرے گا۔ بنیادی طور پر امریکی پاک چین اقتصادی راہداری اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبے سے کچھ خاص خوش دکھائی نہیں دیتے اور ان کا مؤقف ہے کہ ان تمام منصوبوں سے دنیا کے مختلف خطوں میں چین کا اقتصادی اثرورسوخ بڑھے گا۔ افغانستان سے امریکیوں کی واپسی جیسے کئی دوسرے سوالوں کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا تاہم ایک بات تو طے ہے کہ سفارت کار نہایت خوش گو، خوش مزاج اور نرم گو ہوتے ہیں، حکومتوں سے اچھے تعلقات کی انہیں تربیت دی جاتی ہے تاہم پالیسی کا تعلق حکومتوں اور اعلیٰ قیادت کا ہوتا ہے سفارت کار سے تعلقات کی بہتری اور خرابی پر باربار سوال درست نہیں ہوتا ایک سفارت کار کا کام سیاسی حکومت کی جانب سے آنے والی پالیسی پر عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔ امریکیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان ان کے بھارت نواز کھیل سے خوش نہیں اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان پر بے وجہ دباؤ ڈالنا بھی عقلمندی نہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ پاکستان افغانستان سے منسلک اپنے مفادات کا تحفظ کرتا رہے گا اور یہ بات بھی واضح ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں گرم جوشی کا وقت کافی دور ہے۔ پاکستان اور امریکی تعلقات کے حوالے سے اکثر ہمارے ماہرین اور عوام صدر ٹرمپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ایسا ہرگز نہیں امریکہ ایک سپر پاور ہے وہاں پر پالیسیاں اور فیصلے کسی کی خواہش اور چاہت پر بنتے اور ٹوٹتے نہیں ہیں۔ افغانستان سے متعلق امریکی پالیسی میں سب سے زیادہ اثرورسوخ امریکی فوج یعنی پینٹاگون کا ہوتا ہے اس کے بعد سی آئی اے پھر اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور آخر میں کچھ حصہ وائٹ ہاؤس کا بھی ہوسکتا ہے۔ امریکی کانگریس خارجہ پالیسی کے امور اور ایشوز پر بحث توضرورکرتا ہے تاہم فیصلے پہلے ہوچکے ہوتے ہیں امریکہ جیسے جمہوری ملک میں بھی ملکی مفادات کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔

افغانستان کے حوالے سے امریکہ کو پاکستان کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہے یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے امن عمل میں کامیابی کے لئے امریکی صدر نے اپنے جرنیلوں کے مشورے پر پاکستانی وزیراعظم کو خط لکھا اور ساتھ ہی افغانستان کے لئے امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زادے کو بھی پاکستان بھیج دیا جس نے پاکستانی قیادت کو افغانستان میں امن کے لئے کردار ادا کرنے کی درخواست کی۔ حال ہی میں امریکی جرنل کینتھ میکنزے نے امریکی سینٹ کی آرمز سروسز کمیٹی کو بتایا کہ افغانستان کے مسئلے کا حل پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ خیرسینیٹر انور بیگ ایک نہایت بامروت انسان ہیں ان کے خلوص اور پیار کی وجہ سے اسلام آباد کے تمام صحافی اور سفارت کار ان کا دل سے احترام اور عزت کرتے ہیں معلوم نہیں کہ مسلم لیگ نون والوں نے کیوں کر ایک ایسے شخص کو حکومت کے دوران پانچ سال تک کھڈے لائن رکھا جب کہ مسلم لیگ نون ان سے کافی اچھے کام لے سکتی تھی۔ نون لیگ کی حکومت آتے ہی ان کو سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا چیئرمین تعینات کیا تاہم اسحاق ڈار کو نواز شریف کا یہ فیصلہ قبول نہیں تھا اس نے بیوروکریسی کے ذریعے انور بیگ کو اتنا تنگ کیا کہ وہ اس عہدے کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور بعد ازاں اسحاق ڈار نے وہ عہدہ جنرل مشرف کی قریبی ساتھی ماروی میمن کو خوش کرنے کے لئے دے دیا۔ انور بیگ نون لیگ کے کلچر میں مس فٹ تھے۔ ویسے بھی بھٹو کی پارٹی میں رہنے والا شخص کس طرح نون لیگ کی قیادت کی غلامی کرسکتا تھا۔ نون لیگ میں اختلاف رائے کی گنجائش نہیں ہے مجھے معلوم نہیں کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ انور بیگ پیپلز پارٹی کے ساتھ ہی جڑے رہتے۔ انور بیگ کو پیپلزپارٹی میں ہی رہنا چاہیے تھا ان کے ساتھ مرحوم امین فہیم نے کچھ اچھا نہیں کیا انہوں نے آصف علی زرداری سے پہلے اختلاف کیا اور بعد میں جا کر وزارت پکڑلی۔ انور بیگ ایک خود دار شخص ہیں ان کے لئے واپسی مشکل ہوگئی تھی ان کے سیاسی مستقبل کا پتہ نہیں تاہم امید ہے کہ ان کی سفارتی سرگرمیاں اسی طرح جاری رہیں گی اور مجھ جیسے صحافیوں کو باخبر لوگوں سے ملنے کا موقع ملتا رہے گا۔

ٹاپ اسٹوریز