میکرون، مے، پیلی جیکٹ، بریگزٹ اور یورپ کا ہنگامی منظر نامہ

ایک طرف وین کو آگ لگی ہوئی ہے دوسری جانب دو نوجوان دکانوں کے شیشے توڑ رہے ہیں ۔ سڑک کنارے ہجوم ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھائے راستہ بند کئے کھڑا ہے۔ یہ نظارہ تیسری دنیا میں رہنے والے لوگوں کے لیے کوئی عجیب نہیں لیکن جس شہر میں اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں وہ دنیا کے ایک ترقی یافتہ، پانچ عظیم طاقتوں میں سے ایک ملک فرانس کا دارالحکومت پیرس ہے۔

جی ہاں پیرس جو اپنی عمارات کے حسن اور خوشبوؤں کے حوالے سے جانا جاتا ہے، آج کل فسادات کی زد میں ہے۔ اب یہ فسادات پیرس کے ساتھ ساتھ پورے فرانس، بیلجئم اور ہالینڈ میں بھی پھیل چکے ہیں۔ یہ فسادات فرانس کی حکومت کے پیٹرول پر ٹیکس لگانے کے بعد شروع ہوئے، پیلی جیکٹ نامی گروپ نے اس اضافے کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع کیاتو دیکھتے ہی دیکھتے یہ مظاہرے پر تشدد ہو گئے۔

پیلی جیکٹ کوئی سیاسی گروہ نہیں، اس گروپ کے ممبران کا تعلق عام عوام سے ہے او ر اس گروہ کا کوئی ایک رہنما ہے، اس بناء پر حکومت کو ان سے مذاکرات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہورہی۔ ان مظاہروں کے بعد فرانسیسی صدر میکرون نے کم از کم قومی اجرت میں اضافہ اور پینشن ریفارمز لانے کا اعلان کیا ہے۔

اس کے علاوہ حکومت نے نجی اداروں سے ملازمین کو ٹیکس فری بونس دینے کی بھی سفارش کی ہے۔ان تمام اقدامات کے باوجود پیلی جیکٹ گروپ نے ابھی تک مظاہرے ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔

ایمنوئل میکرون سن 2017 سے فرانس کے صدر ہیں۔ ان کی جماعت لا رپبلک ان مارچے ایک نوزائدہ تبدیلی پسند جماعت ہے۔ فرانسیسی عوام نے انہیں دیگر پرانی جماعتوں کے اثر و رسوخ کے باوجود کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اس جماعت کے زیادہ تر لوگ بھی عام عوام میں سے ہیں، اس کے باوجود گزشتہ دو برسوں میں جس طرح ان کی مقبولیت کا گراف گرا ہے اس امر نے انقلاب فرانس کی یاد تازہ کر دی ہے۔

انقلاب فرانس کے بعد بھی عام لوگوں نے جب حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو کچھ عرصے بعد عوام ہی اپنے نئے حکمرانوں سے بدزن ہونا شروع ہو گئی تھی۔ آج بھی کچھ ایسی ہی صورتحال فرانس میں نظر آ رہی ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کیا مستقبل میں فرانس میں کوئی نپولین آتا ہے یا میکرون اور ان کے ساتھی ان پیلی جیکٹ والوں کو رام کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

یورپ آج کل ایک مشکل وقت سے گزر رہا ہے، ایک طرف تارکین وطن یونان، اٹلی اور اسپین میں جوق در جوق آرہے ہیں تو دوسری طرف برطانیہ میں بریگزٹ نے سیاسی ہنگامہ کھڑا کیا ہوا ہے۔ پولینڈ، ہنگری اور چیک رپبلک پر دائیں بازو کی حکمران جماعتیں یورپی یونین سے بغاوت پر اتری ہوئی ہیں اور برسلز کے کئی احکامات ماننے سے انکاری ہیں۔

یوکرین کا تنازع شدت اختیار کرتا جارہا ہے، روس ایٹمی میزائلوں کی روک تھام کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کوتیار ہے ۔ اگر روس معاہدے کی خلاف ورزی کرے گا تو امریکہ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی معاہدے کی پاسداری نہیں کرے گا ایسی صورت میں ایک نئی ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہوسکتی ہے۔ اس دوڑ کا سب سے زیادہ نقصان یورپ کو ہی ہوگا۔

برطانیہ کی عوام نے2016 میں بریگزٹ ریفرنڈم کی صورت میں یورپی یونین چھوڑنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ فیصلہ اب برطانیہ کی سیاسی تاریخ کا ایک مشکل ترین فیصلہ بن گیا ہے۔ آرٹیکل 50 کے لاگو ہونے کے بعد برطانیہ نے 29مارچ 2019 تک یونین سے نکل جانا ہے۔ یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان بریگزیٹ پر مزاکرات گزشتہ دو سالوں سے جاری تھے۔ ان مزاکرات میں سب سے اہم مسئلہ شمالی آئر لینڈ اور رپبلک آف آئرلینڈ کے درمیان بارڈر اور کسٹم یونین رہا۔

آئرلینڈ کی سرحد برطانیہ اور یورپی یونین کے درمیان واحد زمینی سر حد ہے۔ شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے جبکہ رپبلک آف آیرلینڈ ایک آزاد خودمختار مملکت ہے۔ دونوں جانب کی عوام کا ایک دوسرے سے دیرینہ تعلق ہے۔ آئرش رپبلکن آرمی (آئی آر اے) شمالی آئرلینڈ کی آزادی کی جنگ برطانیہ سے لڑ چکا ہے اور گڈ فرائیڈے معاہدے کے بعد اس جنگ کا اختتام ہوا۔

اب بریگزیٹ کے بعد اگر یورپ اور برطانیہ کے درمیان دوبارہ سرحدیں بنا دی جائیں گی تو اس صورت میں آئرلینڈ اور شمالی آئر لینڈ کے درمیان تمام تجارتی، معاشی اور سماجی تعلقات میں رکاوٹ پیدا ہونے کا امکان ہے۔ یہ بات کسی صورت میں شمالی اور رپبلک آف آئرلینڈ کی عوام کو قابل قبول نہیں۔

یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان متوقع معاہدے میں شمالی اور رپبلک آف آئر لینڈ کے درمیان وقتی طور پر سرحد نہ بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ بات برطانیہ کے دیگر علاقوں بشمول ڈیموکریٹک یونینسٹ پارٹی (ڈی یو پی) جو شمالی آئر لینڈ کی نمائندہ جماعت ہے، انہیں قبول نہیں۔

تھریسا مے کو اس وجہ سے کنزرویٹو پارٹی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا۔ تحریک تو ناکام ہوئی لیکن اب وزیر اعظم کو نئے امتحان کا سامنا ہے ۔ انہیں ایک مرتبہ پھر یورپی ممالک کا دورہ کر کے مختلف یورپی رہنماؤں کو ڈیل تبدیل کرنے کے لئے راضی کرنے کی کوشش کر نی پڑے گی۔

یورپی یونین نے واضح کر دیا ہے کہ ڈیل میں تبدیلی نہیں ہو سکتی لیکن اگر برطانیہ یورپی یونین میں رہنا چاہے تو یونین برطانیہ پر کوئی جرمانہ عائد نہیں کرے گی۔ یورپ اس وقت ایک مشکل سیاسی صورتحال کا شکار ہے۔ ایسی صورت میں بریگزیٹ ڈیل میں تبدیلی ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہی۔

دوسری جانب برطانوی پارلیمان اس ڈیل کو ماننے کے لئے تیار نہیں اب دیکھنا ہوگا کہ تھریسا مے آخر اس بحران سے نکلنے کے لئے کیا اقدامات کرتی ہیں۔ یورپ کے لیے آئندہ آنے والے دن بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ واقعات نہ صرف یورپ کی سیاست پر اثر انداز ہوں گے بلکہ ان کا اثر دنیا کہ دیگر ممالک پر بھی ہوگا۔

ٹاپ اسٹوریز