پاکستان میں رضاکاروں کی پذیرائی وقت کی اہم ضرورت

ایک معاشرے کے کردار کی پیمائش کس طرح سے ممکن ہے؟ ابن بتوتا کے مطابق غریبوں کے حالات اور امیروں کی سخاوت سے ایک معاشرے کے کردار کی پیمائش کی جا سکتی ہے۔ ابن بتوتا نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ دور دراز علاقوں کے سفر کے ذریعے علم حاصل کرنے اور پھیلانے میں صرف کیا۔

معاشرے کا سب سے اہم ستون ہونے کی حیثیت سے ہر انسان کا کردار معاشرے کو بنانے میں بہت اہم ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق انسان کی سرشت میں اچھائی ہی ہے جب کہ برائی انسان اپنے معاشرے، تربیت اور ماحول سے سیکھتا ہے۔ اسی فطرت کے ساتھ مذہب کی تلقین نے انسان کو اپنے خاندان، برادری اور تمام معاشرے کی فلاح کا احساس دلایا جو تاریخ میں مختلف انداز سے ظاہر ہوا جیسے کہ جنگوں میں فوجی رضاکار اپنی جان پر کھیل کر ملک کا دفاع کرتے اور اسی طرح طبعی رضاکار لوگوں کو طبعی سہولیات فراہم کرتے رہے۔

آج دنیا میں ایک ارب سے زائد رضاکار مختلف شعبوں میں اپنی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اس عمل کے پیچھے انصاف، برابری اور آزادی کا جذبہ بھرپور شامل ہے۔ رضاکار نہ صرف اپنی اقدار کے بل پر اپنی خدمات سے معاشرے میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ایسی خدمت ان کو ایک اچھا انسان بنانے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ سکھا دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے دور میں دنیا بھر میں رضاکاروں کو بہت اہمیت اور مقام حاصل ہے۔

گزشتہ دنوں روس کے شہر ماسکو میں “بین الاقوامی رضاکار فورم 2018” کے نام سے ایک ایونٹ منعقد کیا گیا جہاں دنیا بھر سے 15,000 رضاکاروں نے شرکت کی۔

یہ ایونٹ نہ صرف روس کی طرف سے ہم آہنگی کا ایک مثبت پیغام تھا بلکہ اس ایونٹ کے ذریعے روس کی جانب سے دنیا بھر کے رضاکاروں کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس ایونٹ کے مرکزی مہمان روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن تھے جنہوں نے روس کا ایک بہت اہم ایوارڈ ’روس کا رضاکار 2018‘ روس کے ایک نوجوان رضاکار کو ان کی  خدمت کی بنا پر دیا۔

اس کے علاوہ اس ایونٹ میں بہت سی ورک شاپس اور لیکچرز کا بھی اہتمام کیا گیا جن کے ذریعے رضاکاروں کو دنیا میں کیے گئے پراجیکٹس کے ساتھ ساتھ اپنی صلاحیتوں کو بہتر طریقے سے استعمال میں لانے کی ترغیب دی گئی۔

 

پاکستان سے 15 رضاکاروں نے ایونٹ میں شرکت کی جن میں رکن قومی اسمبلی عالمگیر خان بھی شامل تھے۔ عالمگیر خان کو ان کی رضاکار تنظیم ’فکسٹ‘ نے ملک کے ایک بہت اہم عہدے تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی کہانی دنیا بھر سے آئے ہوئے رضاکاروں کے ساتھ شیئر کی۔

بقیہ وفد میں سرمد شہباز، مدیحہ نیلم، عاقب جاوید، محمد طحہ، احمد طور، شہاب الدین مخدوم، میمونہ خان، عمر دل، ابراہیم خان، صہیب تنویر، حمزہ خٹک، ریان زاہد، ماروی بیگ اور محمد فرقان شامل تھے۔ یہ سب نوجوان مختلف رضاکار تنظیموں سے منسلک ہیں اور پچھلے پانچ سالوں سے معاشرے کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔

مغربی معاشرے میں رضاکاروں کو دی جانے والی اہمیت نے اس جذبے کو بہت فروغ دیا ہے۔ پاکستان کی آدھی سے زیادہ آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو کہ ملک کی ترقی میں بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں بھی رضاکاروں کو اہمیت دی جائے تاکہ اس جذبے کو فروغ دیا جا سکے۔ اگر اس ملک کے نوجوان رضاکارانہ طور پر مختلف شعبوں میں اپنی خدمات دینے لگیں تو ملک کے بہت سے مسائل پر قابو پانے میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز