زبیدہ طارق، لو جدائی کو برس بیت گیا

ہم کیسے بھول سکتے ہیں، آج سے ایک سال قبل ہماری پیاری زبیدہ آپا ہم سے بچھڑ گئیں اور آج انہیں ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال گزرچکا ہے۔

4 اپریل 1945ء کو پیدا ہونے والی زبیدہ طارق کا تعلق ایک ادبی اور فنکار گھرانے سے تھا وہ نامور مصنفہ فاطمہ ثریا بجیا اور مصنف انور مقصود کی بہن تھیں جس گھرانے میں ایسے انمول نگینے پرورش پائے ہوں وہاں سے زبیدہ آپا جیسی ماہر ومنفرد شخصیت کا سامنے آنا کوئی عجب بات نہیں۔

شگفتہ لہجے کی مالک زبیدہ آپا نے ٹی وی اسکرین پر کچھ اس طرح سے اپنا نام پیدا کیا کہ ہر گھر میں اُن کے پکائے ہوئے کھانوں اور بتائے ہوئے ٹوٹکوں کے چرچے پھیل گئے، زبیدہ آپا کے پاس ہر گھریلو مسئلے کا حل ہوتا۔ زبیدہ آپا وہ کھانے پکاتی اور سکھاتی تھیں جو ہر گھر میں پکائے جاسکیں۔ اس کے علاوہ ان کے پاس ٹوٹکوں کا وسیع خزانہ بھی تھا۔ بے شمار امراض کا علاج ہو یا کسی بھی قسم کا مسئلہ درپیش ہو اس کا حل زبیدہ آپا کے پاس لازمی ہوتا تھا، جس مسئلے کی جانکاری نہ ہوتی اس کیلئے صاف انکاری ہوجاتیں کہ ”بیٹا ڈاکٹر کے پاس جا“آج وہ تو ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن لوگ اُن کے بتائے ہوئے ٹوٹکوں کو آزماتے ہیں ، فائدہ حاصل کرتے ہیں اور ان کو دعائیں دیتے ہیں۔

زبیدہ آپا فرسٹ ائیر میں تھیں کہ ان کی شادی ہوگئی اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کا موقع اور وقت نہیں مل سکا جس کا انہیں ہمیشہ قلق رہا۔شادی تایا کے گھر میں ہوئی، جب ذمہ داریاں پڑیں تو کھانا پکانے کے بارے میں سوچا، یہ سلسلہ چلا تو پھر چل ہی نکلا اور یہی مستقبل میں ان کی شہرت کا ذریعہ بھی بنا۔

انہوں نے اپنے باقاعدہ کیرئیر کا آغاز 50سال کی عمر میں کرتے ہوئے یونی لیور ڈالڈا ایڈوائزی سروس میں کام کیا ۔ریٹائرنمنٹ کی عمر میں ملازمت کا آغاز کرکے انہوں نے اپنی ہمت اور حو صلے کو ثابت کردیا اور پھر دیکھنے والی آنکھوں نے انہیں ترقی کا سفر کچھ اس طرح سے طے کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ شہرت کے حوالے سے اپنی بہنوں فاطمہ ثریا بجیا، زہرہ نگاہ، بنٹوکاظمی ، بھابی عمرانہ مقصو د ، بھائیوں انور مقصود اور مقصود حمیدی سے بھی آگے نکل گئیں۔بے نظیر ویمن ایکسیلنس ایوارڈ ان کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

دل کے عارضے میں مبتلا ہونے کے بعد زبیدہ آپا تشویشناک حد تک کمزوری کا شکار ہوگئی تھیں۔ ہم مصالحہ پر ان کے پروگرام ”ہانڈی “کی مقبولیت کا یہ عالم تھا جب لوگوں نے ان کی بیماری کا سنا تو ان میں ان کی صحت کے ساتھ یہ تشویش بھی پھیلنا شروع ہوگئی کہ کہیں ان کا پروگرام بند نہ ہوجائے گا۔ خرابی صحت کی وجہ سے ہفتے میں چھ دن لائیو شو کرنا ان کیلئے ممکن نہ رہا تو ان کے پروگرام کو ویک اینڈز پر منتقل کردیا گیا۔

مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ عوام سے رابطہ محدود ہونے کی وجہ سے وہ بہت اُداس رہا کرتی تھیں۔ ایک دن ملاقات میں انہوں نے مجھ سے کہا ۔”دیکھ بیٹا، اب عادت سی ہوگئی تھی روزانہ ایک وقت پر لوگوں سے بات کرنے، اُن کے مسائل اور دکھ بانٹنے کی۔ اب کچھ تنہائی سی محسوس ہوتی ہے، لیکن میں نے بات کی ہے اطہر صاحب سے کہ جیسے ہی میری صحت بہتر ہوگی ہم ”ہانڈی “کو واپس لوگوں کے درمیان لے آئیں گے۔“

میں نے ان کی بات کی تائید کی کیوں کہ میں خود دن میں سینکڑوں کالز اس حوالے سے وصول کیا کرتی تھی۔ ہم منتظر تھے ان کی صحت کی بہتری کے اور اُن کی واپسی کے لیکن ایسا نہ ہوسکا ۔

5جنوری 2018ء کی رات دل کی تکلیف نے انہیں بے حال کیا، گھر والے اسپتال کی جانب بھاگے لیکن کوئی کوشش بارآور ثابت نہ ہوسکی۔ 72سال کی عمر میں اپنے بے شمار چاہنے والوں کو چھوڑ کر زبیدہ آپا اپنے حقیقی سفر پر روانہ ہوگئیں۔

ٹاپ اسٹوریز