مستقبل کے معماروں کو بچائیں 

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں منشیات کا بڑھتا ہوا رحجان اب کسی سے ڈھکا چھپا نہیں جبکہ16  ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ لاہور میں نجی  اورسرکاری تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا نوٹس لیا گیا جس کے بعد سینیٹ سمیت ملک بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی لیکن ابھی تک اس کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے۔

میڈیا کی جانب سے بار بار اس اہم مسئلے کو اٹھائے جانے کے باوجود متعلقہ ادارے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ لمحہ فکریہ اور المیہ یہ ہے کہ بعض نشہ آورجیسے سگریٹ، نسوار اور چرس آج اتنی عوامی ہوچکی ہیں کے انہیں قومی نشے کا درجہ دیا جانے لگا ہے جبکہ اس فہرست میں اب میں آئس اور کرسٹل میتھ کا اضافہ بھی عمل میں آچکا ہے۔ ڈیڑھ سال قبل”شیشہ“کی وبا پھیلی لیکن حکومت کی جانب سے عائد پابندی کی وجہ سے اس میں کمی دیکھنے میں آئی۔

آئس کی ایک پڑیا مارکیٹ میں پانچ سے دس ہزار روپے میں فروخت ہونے کے باوجود طلبہ میں اس کا رجحان تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ آئس کی مقبولیت کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اسے استعمال کرنے والا چار دن تسلسل کےساتھ جاگ سکتا ہے اسی لیے بیشتر طلبا امتحانات کی تیاری کے لیے آئس کا استعمال کرتے ہیں۔ اورحد تو یہ ہے کہ  تعلیمی اداروں خصوصاً ہاسٹلوں میں رہنے والے طالبعلم سگریٹ میں آئس بھرکر پیتے ہیں جبکہ یہ نشہ انجکشن کے ذریعے بھی لیا جاتا ہے جبکہ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ہاسٹلوں میں رہنے والی لڑکیوں کی اکثریت نشے کی عادی ہے تاہم ان میں نشہ آور چیونگم کا استعمال زیادہ عام ہے اور پاکستان میں تھائی لینڈ اور یورپ سے درآمد شدہ فلیتو نام چیونگم نوجوانو میں  مقبول ہورہی ہے جسے 500 سے 1200 روپے تک میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اسے چبانے والے طلبہ گھنٹوں نشے میں دھت رہتے ہیں۔

یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اسکولوں میں نشے کے عادی بیشتر طلبا کا تعلق امیر گھرانوں سے ہے جو منشیات کے استعمال کو فیشن سمجھتے ہیں لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل منشیات کو برا نہیں سمجھتی اور نہ ہی انہیں اس کے مضمرات سے آگاہی حاصل ہے۔ منشیات کے عام ہونے میں اس کی آسانی سے دستیابی کا اہم کردار ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے جنرل اسٹورز، کینٹین، فروٹ شاپس، ہوٹل، لانڈری، بچوں کو لانے لے جانے والے ٹیکسی اوررکشہ ڈرائیورز اور باربر شاپس پر کا م کرنے والے ملازمین منشیات کی فراہمی میں پیش پیش ہیں بلکہ کچھ نجی تعلیمی اداروں کے گارڈز بھی اس کام میں ملوث پائے گئے ہیں۔ منشیات فروشوں نے نئے دور کے ساتھ زہر بیچنے کا انداز بھی جدید کرلیاہے۔ آج فیس بک، واٹس اپ اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع منشیات کی ترسیل کا موثر ترین ذریعہ ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد 76 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جن میں 78 فیصد مرد اور 22 فیصد خواتین ہیں۔ منشیات کے عادی افراد میں 13سے  24سال کے لوگ شامل ہیں جو ایک یا ایک سے زائد بار نشے کی طرف مائل ہوئے ہیں۔ پاکستان میں امیر اور غریب افراد کے نشے میں واضح فرق ہے کیونکہ نشہ اب سستا نہیں ہے۔ پیسے والا طبقہ آئس کرسٹل، میتھ ، حشیش اورہیروئن کےساتھ ساتھ مختلف دواؤں کا استعمال کرنا پسند کرتا ہے جبکہ متوسط طبقے وا لے فارماسیوٹیکل ڈرگز، شراب، چرس، پان، گٹکا، نسوار اورسگریٹ وغیرہ کا سہارا لیتے ہیں۔

اس ضمن میں کیے گئے آخری قومی سروے (2002 تا 2003) کے مطابق ہیروئن کی لت میں مبتلا افراد کی اوسط عمر 26 سال سے کم ہو کر 22 سال تک کی تشویشناک حد پر پہنچ گئی ہے، جن میں بڑی تعداد خواتین بالخصوص مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کی ہے اور یہ شرح 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

اس وقت مقبول ترین نشے میں سرفہرست سگریٹ نوشی ہے جسے لوگ نشہ سمجھتے ہی نہیں ہیں، سگریٹ سے آگے بڑھ کر بات شراب نوشی  ہیروئن اور دیگر نشہ آور اشیا تک جا پہنچتی ہے۔ ایک ایسی ہی مالدار خاتون نے سگریٹ نوشی کی وجہ کچھ یوں بتائی کہ ”یہ ان کے لیے اسٹیٹس ”کی علامت ہے اورانہیں اپنے مغربی طرز کے رہن سہن کو برقرار رکھنے کی خاطر یہ سب کرنا پڑتا ہے اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں ہے۔

نشے کی عادت جہاں انسانی تباہی کا باعث بنتی ہے وہیں کئی معاشرتی اور سماجی برائیوں کو بھی جنم دیتی ہے۔ منشیات کے عادی افراد میں ایک جانب زمانے کے ٹھکرائے ہوئے یا ناکامی کے بوجھ تلے افراد شامل ہیں جو صرف راہ فرار  تو دوسری جانب شوقیہ نشہ کرنے والے دولت مند ہیں جو اپنی روزمرہ زندگی میں کسی تبدیلی یا ایڈونچر کی غرض سے نشہ کرتے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ان میں بڑی تعداد ایسی کم عمر لڑکیوں کی ہے جو مختلف تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم ہیں اوران کے دوستوں میں نشہ آور اشیا کا استعمال عام بات ہے اسی وجہ سے بیشتر لڑکیاں دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کےلیے جبکہ ایک بڑی تعداد وزن پر قابو پانے کرنے کےلیے چرس کا نشہ کرتی۔

نفسیاتی ماہرین کے مطابق ایسی خواتین کے مسائل کو اُن کے سماجی تربیت کے مختلف پہلوؤں مثلاً نسل پرستی، جنس پرستی اور غربت سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔ وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد معاشرے سے منشیات کے خاتمے کےلیے متحد ہو کر کوششیں کریں۔ منشیات کے مکمل خاتمے کےلیے، منظم تعلیم اور معاشرے کی مسلسل حمایت ضروری ہے جبکہ شعور و بیدار کرنے کے پروگرام مرتب کرنے اور ان پر موثرعمل درآمد کی بھی ضرورت ہے۔ اسی طرح سے معاشرے کے ہر فرد کے لیے بہتر اور زیادہخوشحال مستقبل کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔

اس بگڑتی ہوئی صورتحال میں والدین سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کیوں کہ اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں کہ بچوں کی پہلی درس گاہ ماہ کی گود ہوتی ہے اور تربیت کا عمل گھر ہی سے شروع ہوتا ہے۔ اگر والدین بچوں کی تربیت پر توجہ دیتے ہوئے انہیں درست  و غلط کی تمیز سکھائیں تو بہت سے مسائل سے نجات حاصل ہوسکتی ہے۔ والدین کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں، ان کے بدلتے ہوئے رویئے اور معمولات پر نظر رکھیں اور کوئی بھی غیر معمولی بات سامنے آنے پر فوری ایکشن لیں جبکہ بچوں کی متواتر کاﺅنسلنگ بھی کرتے رہیں اور ان سے دوستانہ رویہ رکھیں۔ ایک تحقیق کے مطابق  بچوں کی اکثریت تنہائی کی وجہ سے نشے کا سہارا لیتی ہے کیونکہجب انہیں والدین کی طرف سے وقت اور توجہ نہیں ملتی تو وہ ایسی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نوجوان کسی بھی ملک کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، ان کی حفاظت اہم قومی ذمہ داری ہے لہٰذا ملک کے تعلیمی اداروں میں منشیات کے پھیلاﺅ اور استعمال کے خلاف فوری کارروائی کی جانی چاہیے اور  کرکے اس مکروہ دھندے میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچایا جان ضروری ہے۔

گزشتہ دنوں ایک ایسی تحریری میں منشیات کے اعداد و شمار، ہمارے معاشرے اور تعلیمی اداروں پر اثرات سے متعلق خوفناک معلومات فراہم کی گئی تھی۔ اگر حکومت، عوام اور والدین نے مل کر اس وبا کے خاتمے کے لیے  اپنا کردار ادا نہ کیا تو اس کے نتائج نہایت خطرناک ہوسکتے ہیں لہٰذاحکومت ہنگامی بنیادوں پر منشیات کے خلاف سخت قانون سازی ، حکومتی سطح پر آگاہی مہم چلانے کے علاوہ لا اینڈ آرڈر نافذ کرنے والے اداروں اور اینٹی نارکوٹکس فورس کو پابند کرے کہ وہ تعلیمی اداروں کو ایسے عناصر سے پاک کرے۔

تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کیس کی سماعت سپریم کورٹ میں جاری ہے، عدالت وفاق اور صوبائی حکومتوں کو منشیات فروشی پر ماہانہ رپورٹ جمع کرانے کا حکم دے چکی ہے۔ اسی لیے اُمید ہے کہ اس ضمن میں حکومت نہ صرف منشیات فروشوں کے خلاف سخت اقدمات کرے گی بلکہ مستقبل میں اس کی روک تھام کے لیے بھی کوئی نہ کوئی جامع منصوبہ بندی بنائی جائے گی جس کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے ملک میں منشیات کی آسان دستیابی کو ختم کیا جاسکے گا، بس شرط ہے تو حکومت کی جانب سے سنجیدہ اقدامات کی۔

ٹاپ اسٹوریز