مخدوش عمارتوں کا انہدام، فوری حل طلب مسئلہ

جو لوگ آئی آئی چندریگر روڈ کے مسافر ہیں وہ شاہین کمپلیکس کے سامنے قائم اس بلڈنگ سے بخوبی واقف ہوں گے جہاں ایک انتباہی بینر آویزاں ہے۔ اس بورڈ پر عمارت کے مخدوش ہونے کی بابت تحریر ہے ۔ عرصہ 10سال سے میں اس عمارت کو دیکھ رہی ہوں، اس کی حالت یقیناً ایسی نہیں ہے کہ اس کے نیچے سے گزرا جائے لیکن انتہائی حیرت انگیز طور پر آج بھی یہ عمارت نہ صرف کھڑی نظر آتی ہے بلکہ اس کے نیچے ائیرلائن کے دو دفاتر بھی فعال ہیں جبکہ روزانہ ہزاروں لوگ جان کی بازی لگاتے ہوئے اس راستے سے گزرتے ہیں ۔ایسے میں اگر بارش ہونے لگے تو یہ خدشہ دوچند ہوجاتا ہے۔اسی لئے تو موسم کی پہلی بارش برستے ہی مجھے خیال آتا ہے ایسی عمارتوں میں رہنے پر مجبور خاندانوں کا ،جو مخدوش ترین گھروں میں اپنے بچوں کے ہمراہ زندگی و موت کا کھیل کھیل رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے گھر کسی بھی وقت منہدم ہوکر انہیں اور ان کے اہل خانہ کو جانی و مالی نقصان پہنچاسکتے ہیں۔

گزشتہ دنوں ڈائریکٹرجنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی افتخارعلی قائم خانی کی ہدایات پرماہرتعمیرات اور انجینئرز پر مشتمل ٹیکنیکل کمیٹی برائے خطرناک عمارات نے مختلف عمارتوں کے سروے کرنے کے بعد شہر قائد کی 352 عمارتوں کو مخدوش اور حساس قرار دیتے ہوئے انہیں فوری طور پر خالی کرنے کا نوٹس جاری کیا۔ اس میں سے صدر ٹاؤن کی 243، لیاری ٹاؤن 40 اور لیاقت آباد ٹاؤن کی 27 عمارتیں بھی شامل ہیں جبکہ حیدرآباد کی 80، میرپور خاص کی 7، سکھر کی 7 اور لاڑکانہ کی 7 عمارتوں کی بھی خطرناک قرار دیا گیا ہے۔ ٹیکنیکل کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ ایسی عمارتوں کے تعمیراتی بنیادی ڈھانچے انتہائی مخدوش ہیں جس کے سبب یہ عمارتیں ناقابل رہائش واستعمال ہوچکی ہیں اورکسی بھی وقت حادثاتی طور پر زمین بوس ہوکر قیمتی انسانی جان و املاک کے نقصانات کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس سلسلے میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے مذکورہ عمارت کے مکینوں و قابضین کو انتباہی نوٹس جاری کرتے ہوئے متعلقہ دیگر محکموں کو بھی مطلع کردیا گیا ہے تاہم عمارات کے مکینوں کے انخلاء کی یقین دہانی نہیں کرائی گئی ہے جو سب سے ضروری امر ہے۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ادارے کی سرکاری ویب سائٹ پر مخدوش اور خطرناک عمارتوں کے اعداد و شمار 288پر رکے ہوئے ہیں جو یکم جون 2015ءکو آخری بار اپ ڈیٹ کئے گئے تھے۔

یادش بخیر سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو محمد حسین سید جب کراچی کے ڈپٹی کمشنر تھے کے زیر صدارت ایک منعقدہ اجلاس میں شہر میں 194 مخدوش عمارتوں کو منہدم کرنے کی منظوری دیتے ہوئے ان عمارتوں میں رہائش پذیر خاندانوں کو عارضی طور پر اسکیم 33 میں تعمیر کئے ہوئے فلیٹوں میں منتقل کرنے کی منظوری دی گئی تھی۔ اس وقت اس ضمن میں منعقدہ ایک اہم اجلاس میں بتایا گیا تھا کہ شہر میں 1000 سے زائد پرانی عمارتیں موجود ہیں جنہیں قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے تاہم اُن کی بحالی پر کثیر سرمایہ درکار ہوگا۔

اس اجلاس میں ایسی 194 عمارتوں کی بھی نشاندہی کی گئی جن کی مرمت اور بحالی ممکن نہیں لہٰذا اجلاس میں ایسی عمارتوں کے انہدام اور ان کے مکینوں کیلئے متبادل رہائش کی فراہمی کی تجویز پیش کی گئی۔ سابقہ ڈی سی او محمد حسین سید کا موقف تھا کہ اگر بلڈنگ کنٹرول کے قوانین میں تھوڑی بہت ترمیم کرکے لوگوں کی جانوں کو بچایا جاسکتا ہے تو اس پر فوری کارروائی کی جائے۔ اس اہم اجلاس میں یہ بھی طے پایا تھا کہ شہر میں تعمیر ہونے والی ہر بلڈنگ کا ریکارڈ موجود ہونا چاہئے جس میں اس کے قیام کی تاریخ، فلورز کی تعداد، فلیٹس کی تعداد کےساتھ ساتھ خاندانوں کا ڈیٹا بھی موجود ہونا چاہئے، اس کے علاوہ یوٹیلیٹی سروسز فراہم کرنے والے اداروں کو چاہئے کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے نقشہ کے مطابق جتنی منزلیں بنانے کی اجازت دی ہے اس کے علاوہ یوٹیلیٹی کنکشن فراہم نہ کریں۔ اس وقت اس ضمن میں تھوڑا بہت کام شروع بھی ہوا لیکن اس ادارے سے محمد حسین سید کے جانے کے بعد اس حوالے سے ہر کام تعطل کا شکار ہی نظر آیا ۔

عمارتوں کی مخدوش صورتحال آج کی بات نہیں بلکہ یہ سالہا سال پرانی کہانی ہے ، ہر سال برسات کے موسم سے قبل ذمہ دار ادارے خطرناک عمارتوں/ مکانات کی ایک فہرست نکال کر اس کی نوک پلک سنوارتے ہیں، ان عمارتوں کو خالی کرنے کے نوٹس جاری کئے جاتے ہیں اور پھرایک طویل خاموشی اور اگلی برسات کا انتظار۔ اس دوران اگر بدقسمتی سے کوئی حادثہ پیش آجائے ،قیمتی جانیں ضائع ہوجائیں تو امدادی کارروائیوں اور اعلانات کا سلسلہ دراز ہو جاتا ہے۔ حکومت کی طرف سے حالات سدھارنے اور مخدوش عمارتوں کے حوالے سے منصوبہ بندی کا حکم جاری ہوتا ہے۔ ترقیاتی ادارے خود کو بری الذمہ اور نقصان اُٹھانے والوں کو ذمہ دار قرار دیتے ہیں بالاخر مرنے والوں کے لواحقین کو کچھ ”دینے دلانے“ کا اعلان کرکے ایک بار پھر خاموشی کی چادر اوڑھ لی جاتی ہے ۔

روشنیوں کے اس شہر میں قیام پاکستان سے قبل انگریزوں اور ہندﺅں کی تعمیرکی گئی اور قیام پاکستان کے فوراً بعد قائم کی جانے والی تاریخی عمارتیں تو آ ہستہ آہستہ کھنڈرات میں تبدیل ہو ہی رہی ہیں لیکن جدید دور میں تعمیر کی گئی بے شمار عمارتیں تکنیکی غلطیوں، خراب میٹریل کے استعمال سمیت دیگر وجوہات کی بناءپر خطرناک صورتحال کا شکار ہیں۔یہ کمزور اور مخدوش عمارتیں کسی بھی وقت بڑے ناخوشگوار واقعے کو جنم دینے کیلئے تیار ہیں۔ تاریخی عمارتوں کی صورتحال یہ ہے کہ یہ تاریخی املاک مناسب دیکھ ریکھ نہ ہونے کے سبب نہ صرف اپنی خوبصورتی کھوبیٹھی ہیں بلکہ آج یہ عمارتیں منشیات فروشوں اور جرائم پیشہ عناصر کے گڑھ میں تبدیل ہوچکی ہیں۔

وطن عزیز کے ترقیاتی اداروں کے دعوو ¿ں کے برعکس جب ان کی رپورٹوں اور کارکردگی کا موازنہ کریں تو ان کی کارکردگی کا پول کھل جاتا ہے ۔کراچی میں بننے والی تمام عمارتوں کے نقشے پاس کرنے سے لے کر ان کی تعمیر میں معیار کاخیال رکھناسابقہ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اور موجودہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ذمہ داری ہے لیکن اس ادارے کی کارکردگی کا اندازہ ٹیڑھی میڑھی اور جھولتی ہوئی عمارات کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے جس کے ذمہ داران کی جیب گرم کرکے کمرشل پلازوں کی کار پارکنگ دکانوں میں تبدیل کی جاسکتی ہیں۔اب ان کی بلا سے شاپنگ سینٹروں کے سامنے خریداروں کی گاڑیوں کی پارکنگ سے ٹریفک جام کی جو بھی صورت پیدا ہو ۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں سے کوتاہی کا پول اس وقت کھلتا ہے جب کسی عمارت میں آگ لگتی ہے یا کوئی حادثہ ہوتا ہے۔ آگ لگنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ عمارت میں ہنگامی اخراج کاراستہ ہی نہیں؟

یہ بھی حقیقت ہے کہ بارہا نوٹس ملنے کے باوجود مخدوش عمارتوں میں مقیم افراد گھروں کو خالی کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے جس کی وجہ بہت حقیقی ہے کیوں کہ یہ با ت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ زمینوں کی آسمان کو چھوتی ہوئی قیمتوں کے باعث اپنے گھر کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے ،شہر کی سینکڑوں مخدوش عمارتوں میں رہنے والے محض متبادل انتظام نہ ہونے کی وجہ سے اپنی جانوں کوخطرے میں ڈال کر ان ہی عمارتوں مےں رہنے پر مجبور ہیں ۔ایسی عمارتوں کے رہائشیوں کا ماننا ہے کہ وہ گھر خالی کرکے جائیں گے کہاں؟ انہیں گھروں کے متبادل گھر دینے کی کوئی بات نہیں کی جاتی جبکہ عمارت گرنے کی صورت میں گھر والوں کو پانچ سے دس لاکھ تو مل ہی جائیں گے۔اس وقت اپنے بچوں کیلئے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا مشکل ہے ایسے میں نئی رہائش کا انتظام کیسے کیا جائے؟ یہ بھی سچ ہی ہے کہ کم آمدنی والے غریب افراد کو چہار دیواری کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے۔پچھلے 20برسوں میں علاوہ تیسر ٹاﺅن کوئی غریب بستی نہیں بسائی گئی ۔ اس کے مقابلے میں نجی اداروں کی جانب سے شہر کے شہر آباد ہورہے ہیں جہاں اب آبادی بھی شروع ہوگئی ہے ۔

مخدوش عمارتوں میں رہائش ایک بہت بڑا انسانی مسئلہ ہے جسے فوری طور پر حل کیا جانا انتہائی ضروری ہے ۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ متعلقہ ادارے مکمل تفصیلات رکھنے کے باوجود کوئی ایسی مربوط اسکیم کیوں نہیں بناتے جس سے یہ اہم مسئلہ حل ہوسکے؟ ان عمارتوں کے رہائشیوں کو متبادل رہائش کی فراہمی،مالکان کو مکانات کی مکمل مرمت یا تعمیر نو کےلئے بہت کم شرح اور آسان تر اقساط پر قرضے کے اجراء، ملک کے مخیرحضرات کے تعاون سے مکانات کی تعمیر نو کے ذریعے یہ دیرینہ مسئلہ چند ہی سال میں حل ہو سکتا ہے لیکن اس کیلئے ذمہ داران کو دیانتداری سے اس طرف توجہ دینا ہو گی جبکہ اس معاملے میں ترقیاتی اداروں کی ”کارکردگی“ کا محاسبہ بھی ضروری ہے۔

گزشتہ روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں جسٹس گلزار احمد اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے شہر کو 40 سال پہلے والی پوزیشن میں بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے جہاں پارکوں، کھیلوں کے میدانوں اور اسپتالوں کی اراضی واگزار کرانے کا حکم دیا، وہیں شہر کی 40 سال پرانے حال میں بحالی کیلئے تجاویز بھی مانگ لیں۔ ان کی جانب سے لوکل حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اصل ماسٹرپلان سے متصادم عمارتوں کو فوری طور پر گرانے کے احکامات جاری کئے گئے ۔

افسوس کہ آج اداروں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کیلئے بھی عدالتیں اور احکامات پر عمل درآمد بھی عدالتی حکم کے بعد ہی ہورہا ہے ۔ اب شاید اس معاملے کیلئے بھی عدالت کی جانب سے دیکھنا پڑے گا ۔ ہوسکتا ہے کہ عوام کا یہ انتہائی سنجیدہ اور دیرینہ مسئلہ بھی عدالت کے حکم کے بعد دنوں میں حل ہوجائے جیسے کہ باقی معاملات حل ہوئے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز