روحی بانو، تجھے کیسے بھول پائیں گے

فاوئنٹین ہاﺅس اور گلبرگ کی سڑکوں پر اپنی بے بسی کا ماتم مناتی ہوئی روحی بانو 10دن وینٹی لیٹر پر رہنے کے بعد آخرکار اپنی زندگی کی بازی ہار گئیں۔

ایک وقت تھا جب پاکستان ڈرامہ انڈسٹری میں روحی بانو کا طوطی بولتا تھا، ان کی منجھی ہوئی اداکاری ناظرین کو بے حد بھاتی تھی۔ گزرتے وقت کے ساتھ عروج سے زوال کی داستان شروع ہوئی۔ پہلے ازدواجی زندگی کی ناکامی اور پھر جواں سال بیٹے کی موت نے روحی بانو کو دماغی مرض میں مبتلا کر دیا۔

پاکستان کی نامور اداکارہ اور اپنے وقت کی یہ حسین ترین خاتون 10 اگست 1951ء میں ممبئی انڈیا میں پیدا ہوئیں، اُن کے والد کا نام اللہ رکھا تھا جو ہندوستان کے مانے ہوئے طلبہ نواز تھے والد کی۔ دوسری شادی کے بعد روحی بانوں کی والدہ بچوں کو لے کر پاکستان چلی آئیں جبکہ والد 2000ء میں انڈیا ہی میں انتقال کرگئے۔ معروف طلبہ نواز استاد ذاکر حسین روحی بانو کے سوتیلے بھائی ہیں۔

لاہور آنے کے بعد روحی بانو نے اپنی تعلیم مکمل کی اور نفسیات میں ایس ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔روحی بانو دو مرتبہ رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئیں اور دونوں ہی مرتبہ ناکامی کا شکار ہوئیں۔ ان کا ایک ہی بیٹا تھا جسے بقول روحی بانو جائیداد کی وجہ سے قتل کردیا گیا۔

کرن کہانی، زرد گلاب، دروازہ اور دیگر بے شمار کلاسک ڈراموں میں یادگار کردار ادا کرکے ناظرین کے دل جیتنے والی روحی بانو کا شمار اُن فنکاروں میں ہوتا تھا جنہوں نے پاکستان میں ٹی وی کو جنم لیتے اور بنتے دیکھا۔

ابھی وہ زیر تعلیم ہی تھیں کہ انہیں ہدایت کار فاروق ضمیر نے اپنے کوئز پروگرام میں شرکت کی دعوت دی اور یہی فن کے سفر میں ان کا نقطہ آغاز تھا، یہ سلسلہ جو شروع ہوا تو پھر تھما نہیں۔ روحی بانو کے ابتدائی ڈراموں میں حسینہ معین کی ”کرن کہانی “ قابل ذکر ہے جو1973ءمیں پی ٹی وی سے ٹیلی کاسٹ ہوا، اس کے بعد 1974ء میں زیر زبر پیش کیا گیا، یہ دونوں وہ ڈرامے ہیں جو پی ٹی وی کیلئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں ، یہ دونوں ڈرامے روحی بانوں کی صلاحیت کا منہ بولتا ثبوت بھی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے ہر اہم ڈرامے میں ، ہر بہترین اداکار کے ساتھ ، ہر اہم کردار ادا کیا۔

ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ڈراموں میں روحی بانوکی موجودگی لازمی سمجھی جانے لگی۔ انہوں نے شوکت صدیقی، بانو قدسیہ، حسینہ معین ،منو بھائی اور اشفاق احمد کے کرداروں کو اپنی بے مثل اداکاری سے زندہ جاوید کردیا ۔ اشفاق احمد نے ”ایک محبت سو افسانے میں “ میں ”اشتباہ نظر“ کے نام سے ایک ڈرامہ لکھا۔ اس ڈرامے میں روحی بانو کی اداکاری کو فراموش کرنا ممکن ہی نہیں۔دروازہ، دھند، سراب ،زرد گلاب ،قلعہ کہانی ہو یا پھر حیرت کدہ ،اُن کے کس ڈرامے کو یاد رکھیں اور کسے بھولیں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔اُن کے ڈرامے صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا بھر بالخصوص انڈیا میں نہایت مشہور تھے ۔ 1980ءمیں ان کے ایک ڈرامے ”پکی حویلی“ نے تو دنیا بھر میں دھوم مچادی۔

انہوں نے ایک بار فلم کی دنیا میں قدم رکھنے کے بعد وہاں کے ماحول کی وجہ سے واپسی اختیار کرلی، ڈراموں میں اپنی صلاحیتوں کو منوانے کے بعد وہ 1975ء میں ایک بار پھر فلم انڈسٹری کی طرف گئیں اور اس بار انہوں نے وہاں کے ماحول کو اپنی صلاحیتوں کے تابع کرلیا۔ انہوں نے اناڑی، دلہن ایک رات کی، تیرے میرے سپنے، نوکر، زینت ،پہچان، سیاں اناڑی، بڑا آدمی، دل ایک کھلونا ، گونج اٹھی شہنائی، راستے کا پتھر، دشمن کی تلاش، آج کا انسان، پالکی، کائنات، خدا اور محبت، کرن اور کلی ، ضمیر اورٹیپو سلطان سمیت بے شمار فلموں میں انتہائی شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کیا۔

روحی بانو جیسے فنکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ کامیابیوں سے مزین اُن کی ہنستی مسکراتی زندگی میں غم کا پہلا پتھر اس وقت گرا جب 2005ء میں ان کے اکلوتے جواں سال بیٹے فرزند علی کا پراسرار انداز میں قتل ہوا اور اس کے چند ہی ماہ کے بعد ان کی والدہ کی سوختہ لاش سامنے آئی۔ یہ وہ صدمے تھے جنہوں نے انہیں زندہ درگور کردیا۔ کروڑوں روپے کی جائیداد کی مالک یہ پری چہرہ اداکارہ ایک نیم پاگل عورت کے روپ میں سامنے آئی۔ پہلے پہل فنکار برادری ان کے شانہ بشانہ نظر آئی اور لوگوں نے انہیں اس صدمے سے باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن بیٹے سے والہانہ محبت انہیں ہوش کی دنیا میں نہ لاسکی۔2015ءمیں روحی بانو پر نامعلوم افراد کی تشدد کی خبر بھی سامنے آئی تاہم یہ پتا نہیں لگا کہ وہ کون لوگ تھے اور مصائب کا شکار اس عورت پر تشدد کرنے کے پیچھے آخر مقصد کیا تھا۔

روحی بانو دربدر بھٹکتی رہیں، قصوری روڈ کے جس مکان میں وہ رہائش پذیر تھیں اسے دیکھ کر کسی بھوت بنگلے کا گمان ہوتا تھا۔ ان کا گھر بجلی، پانی، گیس سمیت تمام بنیادی ضرورتوں سے محروم تھا۔ اس گھر میں دو چیزیں ایک دوسرے کے مقابل نظر آتیں ایک روحی بانو اور دوسرا اُن کے سامنے رکھا ہوا ٹیلی ویژن جس پر وہ سارا سارا دن ڈرامے دیکھا کرتیں۔ ذہنی ابتری کا شکار روحی بانو روپے پیسے سمیت ہر چیز سے بے نیاز نظر آتیں۔ وہ ایک قیمتی گھر میں رہا کرتی تھیں، پنجاب میں کچھ زرعی زمینیں اور کراچی میں فلیٹ بھی ان کے نام پر تھا لیکن صد افسوس کہ ان کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اُن کے پاس ایک گاڑی بھی تھی جو چند سال قبل گھر کے اندر سے ہی چوری ہوگئی لیکن روحی بانو ان چیزوں سے بے نیاز تھیں۔

میڈیا پر اُن کی ذہنی ابتری کی خبریں آتی ہی رہتی تھیں۔ نومبر 2018ء میں روحی بانو نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس سے تحفظ کی فراہمی کی اپیل کی اور قبضہ مافیا کی جانب سے دھمکیوں کی بابت بھی بتایا۔ اس پریس کانفرنس کے بعد انہیں فاونٹین ہاﺅس بھیج دیا گیا۔ پریس کانفرنس میں روحی بانونے یہ بھی بتایا کہ وہ گزشتہ ایک سال سے اپنے بھانجے کے ہمراہ ترکی میں رہائش پذیر تھیں ۔انہوں نے کہا کہ ان کا گھر والدہ نے بنوا کردیا تھا جس میں سے ، بہن بھی حصہ مانگ رہی ہے لیکن و ہ اسے نہیں دینا چاہتیں۔ اس پریس کانفرنس میں انہوں نے بیٹے کے قتل کو بھی اس پراپرٹی سے ہی مربوط کیا ۔

روحی بانو جب ،جب سامنے آئیں ان کے دکھ اور ان جیسی ذہین اور خوبصورت اداکارہ کی حالت زار پر ماسوائے افسوس کے ہم کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ اُن کی ذہنی ابتری کے سبب لوگ ان کے حوالے سے کسی بھی منفی خبر کیلئے ذہنی طور پر تیار تھے لیکن جب آج کے جانے کی خبر ملی تو نجانے کیوں اس خبر پر یقین کرنے کا دل نہیں چاہا ۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دے ، زندگی میں تو انہیں سکون نہ مل سکا اللہ کرے کہ مرنے کے بعد انہیں سکون حاصل ہو۔

ٹاپ اسٹوریز