علم کا اشتراک، قومی اور علاقائی زبانوں کی ترقی ضروری ہے

ہر انسان ایسے کمروں میں بند ہے جس کی دیواروں میں گھریلو ماحول کا گارا، سماجی تعلیم کی اینٹیں، انفرادی نفسیات کی سیمنٹ اور ڈی این اے کا پلستر استعمال ہوا ہے۔ ان پختہ دیواروں کے بیچ اسے جذبوں اور عقل کے چند مہین سے شگاف مہیا کیے گئے ہیں جن کے ذریعے باہر پھیلی کائنات کی چند مبہم سی جھلکیاں اسے نصیب ہوتی ہیں اور وہ اسے علم کی معراج جان کر اتراتا رہتا ہے۔ انہی کی بنیاد پر انسان اپنے نظریات، تصورات اور خیالات کی دنیا قائم کرتا ہے۔ چند شگافوں کی مدد سے اربوں کھربوں نوری سالوں پر پھیلی کائنات کی تفہیم کسقدر نامکمل ہو سکتی ہے اس کا اندازہ قدیم تہذیبوں میں پھیلے تصورات سے کیا جا سکتا ہے۔ آفاقی سچائیوں کا ایک طویل کوہ ہمالیہ ہے جس کی کسی چھوٹی سی وادی کے ایک مختصر سے ٹکڑے میں انسان تمام عمر گھومتا رہتا ہے۔
اب اس منظر کو تھوڑا مزید پھیلا کر دیکھیے۔ فرض کریں اپنے اپنے کمروں میں مقید ان انسانوں کو قدرت نے باہمی رابطے کا راستہ مہیا کر دیا ہے۔ اب تمام قیدی ایک دوسرے کو اپنے اپنے مشاہدات، نظریات اور ذہنی تصورات بتانے پر قادر ہو چکے ہیں۔ قدرت کی طرف سے فراہم کردہ تخیل کی نعمت سے سرفراز انسان جب ایک دوسرے کے تجربات کی مدد سے کائنات کی ذہنی تصویر بنانا شروع کر تا ہے تو اس کا ذہنی افق وسیع تر ہونے لگتا ہے۔
پوری انسانی تاریخ میں جب بھی دو قوموں یا تہذیبوں کا باہمی تعامل ہوا ہے نسل انسانی کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ہے۔ دو افراد کے ایک دوسرے تک اپنا علم منتقل کرنے کی نسبت دو ملکوں یا تہذیبوں کے درمیان علم کا اشتراک بہت بڑی تبدیلی کا باعث بنا ہے۔ چونکہ ماضی میں جنگ واحد ذریعہ تھا جو دو تہذیبوں کے درمیان علم کے اشتراک کے راستے کھولتا تھا اس لیے یہ ادارہ پوری آب و تاب سے چمکتا رہا۔ جنگوں کی بدولت ہی منجمد معاشروں میں تخلیقی تحرک پیدا ہوتا رہا۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک یورپ میں چھاپہ خانہ ایجاد نہیں ہوا۔ اس انقلابی ایجاد کی بدولت کتاب اور رسائل کی صورت میں بڑے پیمانے پر انسانوں نے ایک دوسرے کے خیالات سے مستفید ہونا شروع کیا۔ علم کے دریا پر قائم بند کھل گئے اور نسل انسانی نے اپنی تاریخ کے سب سے عظیم الشان علمی انقلاب کا نظارہ کیا۔ یہ تصور غلط ہے کہ مغرب میں کلیسا کی گرفت کمزور ہونے کی وجہ سے جدید سائنسی اکتشافات کی راہیں کھلیں۔ کلیسا کی کمزوری بھی چھاپے خانے کی وجہ سے ممکن ہوئی کیونکہ مذہبی علم پر پادریوں کی اجارہ داری کا خاتمہ ممکن ہوا اور عام آدمی مذہبی کتب کے براہ راست مطالعہ کے قابل ہوا۔ اصل انقلاب کتب کے ذریعے تبادلہ علم کی بدولت آیا۔
علم کا اشتراک کتاب کی بدولت ہو یا براہ راست گفتگو کے ذریعے، اس سب کی بنیاد میں زبان کی صورت میں قدرت کا بخشا تحفہ کارفرما ہے۔ اسی خصوصی صلاحیت کی بدولت انسان باہم مل کر سچائی کی ایک بڑی تصویر تشکیل دینے پر قادر ہوئے ہیں۔ ہزارہا سال سے جاری اس کاوش کے نتیجے میں علم کا ایک مشترکہ چشمہ تخلیق ہو چکا ہے جہاں سے جرعہ بہ جرعہ تحصیل علم کر کے انسان اپنی سوچ کو وسعت دیتا جا رہا ہے۔
چھاپے خانے کی ایجاد کے بعد انٹرنیٹ کی شکل میں علم کے اس بہاؤ کو نیا رخ ملا اور اس نے تمام تہذیبوں کو آپس میں جوڑ دیا۔ اب کمروں میں مقید نسل انسانی تمام قفل توڑ رہی ہے، دیواروں کے شگاف وسیع ہوتے جا رہے ہیں اور تخیل اپنی حقیقی قدر و قیمت دکھا رہا ہے۔ جو ترقی قدیم دور میں خون آشام جنگوں اور دہائیوں کی لہو رنگ جدوجہد کے بعد بھی ممکن نہیں ہو پاتی تھی وہ اب کمپیوٹر اور موبائل کی مدد سے پرامن راستوں سے تھوڑے سے عرصے میں وقوع پذیر ہو جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جنگ کا ادارہ اب کمزور پڑ چکا ہے اور عین ممکن ہے کہ جس طرح غلامی جیسے قدیم ترین ادارے کو نسل انسانی ترک کر چکی ہے ویسے ہی جنگ کے عفریت سے بھی جان چھڑا لی جائے۔ تاہم ابھی اس راہ میں ایک رکاوٹ باقی ہے جس کی وجہ سے انٹرنیٹ کے ممکنات پوری طرح عمل میں نہیں آ رہے۔

اس وقت انگریزی زبان عالمگیر ذریعہ ابلاغ بن چکی ہے لیکن دنیا میں بہت کم لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مختلف زبانوں کی موجودگی تبادلہ علم کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لیے انسان نے بہت کام کر لیا ہے۔ بہت سے سافٹ ویئرز وجود میں آ چکے ہیں جو مختلف زبانوں کا ازخود ترجمہ کر سکتے ہیں۔ یہ کام ابھی ابتدائی دور سے گزر رہا ہے تاہم غالب امکان ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں انسان اس بات پر قادر ہو جائے گا کہ کسی بھی زبان میں لکھی یا کہی بات کو دوسری زبان میں خود بخود ترجمہ کیا جا سکے۔
جس دن ہم نے یہ منزل پا لی اس دن ایک نئی طرزکا انقلاب آئے گا جس کے اثرات کا ابھی ہم اندازہ نہیں کر سکتے۔ اس نئی پیش رفت میں امکانات کا ایک نیا جہان چھپا ہے جس کے بارے میں ابھی ہمارے ہاں زیادہ غور وفکر نہیں ہو رہا۔ لسانیات کے موضوع نے اس وقت فلسفے میں جو اہمیت حاصل کر لی ہے وہ بے سبب نہیں ہے کیونکہ فلسفہ ایک ایسا علم ہے جو روح عصر کی پکار سننے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتا ہے۔
زبانوں کے آپس میں خود کار تراجم کا ایک فوری نتیجہ تو یہ ہو گا کہ علم پر انگریزی زبان کی اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ ہر کوئی اپنی مادری یا قومی زبان میں علم کے تمام تر ذخیروں تک رسائی کے قابل ہو جائے گا۔ لیکن جن زبانوں میں وسعت نہیں ہو گی وہ اس انقلاب کا سامنا نہیں کر پائیں گی اور غالب امکان ہے کہ وہ قصہ پارینہ بنا جائیں۔ اگر ہم نے اپنی قومی زبان یا علاقائی زبانوں کو آنے والے سخت مقابلے کے لیے تیار نہ کیا تو نہ صرف علمی دنیا میں پیچھے رہ جائیں گے بلکہ اپنی شناخت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ سافٹ ویئر کے حوالے سے بھی بہت کام کرنا باقی ہے۔ ہمارے ہاں عموماً اس بات پر بحث کی جاتی ہے کہ کس زبان کو ذریعہ تعلیم ہونا چاہیئے۔ جدید دور میں یہ ایک غیرضروری بحث ہے۔ زبان کی وسعت اور معیاری سافٹ ویئرز کی تیاری ہمارے مباحث کا اصل موضوع ہونا چاہیئے۔ اگر اس محاذ پر ہم کامیاب ٹھہرے تو ہماری شناخت بھی باقی رہ جائے گی اور ہم اپنی زبان میں معیاری تعلیم دینے کے قابل رہیں گے۔ بصورت دیگر ہمیں علم کے سمندر سے بچھڑی ہوئی لہروں کے جوہڑ زدہ پانیوں میں اپنے وجود کی پرچھائیاں تلاش کرنی پڑیں گی۔

ٹاپ اسٹوریز