بدلتا موسم ،مچھر اور بیماریاں

صحت انسان کی بنیادی ضرورت ہے اور اسکے بغیر انسانی زندگی کا تصور ممکن نہیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں صحت کا شعبہ گوناں گوں مسائل کا شکار ہے۔ اگرچہ حکومت اور صحت سے متعلقہ ادارے اس شعبہ کو بہتر بنانے اور عوام کوصحت کی سہولیات فراہم کرنے کے لئے کوشاں ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے اسپتال متعدی اور غیر متعدی امراض کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ۔ ہر سال موسم بدلنے کے ساتھ ہی مختلف بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں جن میں آلودہ پانی وخوراک، جانوروں اور مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریاں شامل ہیں ۔ان بیماریوں سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ بر وقت اقدامات کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور و آگاہی پیدا کی جائے۔

قومی ادارہ صحت کا شمار پاکستان کے ان ادروں میں ہوتا ہے جو صحت عامہ کی خدمات کے لئے پیش پیش ہیں۔ یہ ادارہ گزشتہ 50 برس سے صحت کے شعبے میں تحقیق، تشخیص، بیماریوں کی روک تھام ، علاج، ادویات (ویکسین) کی تیاری اورعوام میں  بیماریوں سے آگاہی  و شعورپیدا کرنے کے لئے اپنی خدمات انجام دے رہا ہے۔

’”ماسکیٹوز الرٹ پاکستان “کے نام سے اینڈرائڈ موبائل ایپلیکیشن متعارف کروائی گئی ہے‘

حال ہی میں قومی ادارہ صحت نے مچھروں سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام اور مچھروں کی اقسام کی درست معلومات حاصل کرنے کے لئے پہلی مرتبہ “ماسکیٹوز الرٹ پاکستان “کے نام سے اینڈرائڈ موبائل ایپلیکیشن متعارف کروائی ہے۔ اس ایپ کے ذریعے شہری اپنے علاقوں میں موجود مچھروں کی تصاویر بنا کر اپلوڈ کر سکتے ہیں۔

“ماسکیٹوز الرٹ پاکستان ” ایپ یہاں سے ڈائون لوڈ کی جاسکتی ہے

ایپ کے ذریعے ملنے والی تصاویر اور معلومات کے ذریعے مچھروں کی اقسام کی نہ صرف میپنگ ہوسکے گی بلکہ ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی روک تھام  کے لئے بھی بروقت اقدامات کئے جاسکیں گے۔اسکے علاوہ مختلف علاقوں میں موجود مچھروں کی افزائش کی جگہوں کی بھی نشاندہی ہو سکے گی۔

ایپ کے ذریعے تصاویر بھیجنے والوں کے نام، ٹیلی فون نمبرز تاریخ، وقت، جس جگہ سے تصویر بھیجی گئی ہے سب معلومات قومی ادارہ صحت کو موصول ہونگی ۔

قومی ادارہ صحت کو اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں سے متعدد تصاویر موصول ہو چکی ہیں جن کی بنیاد پر تحقیق جاری ہے کہ کس علاقے میں کونسا مچھر پایا جاتا ہے اور اس سے کونسی بیماری لاحق ہونے کا اندیشہ ہے ۔

ماہر امراض حشریات ،قومی ادارہ صحت عالیہ جبین کا کہنا ہے کہ مچھروں کی مختلف اقسام پوری دنیا میں انتہائی خطرناک اور مہلک بیماریاں پھیلانے کا سبب بن رہی ہیں۔ ان بیماریوں سے بچاؤ اور ان کا مکمل علاج فی الوقت موجود نہیں ہے البتہ لوگ احتیاطی تدابیر اپنا کر مچھروں کے کاٹنے سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

پاکستان میں ہر سال ڈینگی اور چکن گونیا کے کیسز رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ ڈینگی  بخار اورچکن گونیا جیسے امراض دراصل ایک خاص قسم کے مادہ مچھر ایڈیز(aedes) سے پھیلتے ہیں۔

اس مچھر کی پہچان یہ ہے کہ اس کے جسم پر سیاہ اور سفید رنگ کی دھاریاں ہوتی ہیں یہ رکے ہوئے صاف پانی میں افزائش پاتا ہے۔اس کے کاٹنے کے اوقات طلوع اور غروب آفتاب کے آس پاس کے ہیں۔

’ملیریا ایک خاص قسم کے مچھراینا فلیز کی مادہ کے کاٹنے سے پھیلتا ہے‘

ملیریا ایک خاص قسم کے مچھراینا فلیز کی مادہ کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔ جب یہ مادہ مچھر کسی ملیریا زدہ شخص کو کاٹتی ہے تو اس شخص کے خون سے ملیریا کے جرثو مے مچھر میں منتقل ہو جاتے ہیں۔یہ جرثومے مچھر کے جسم میں ہی نشونما پاتے ہیں اور تقریباً ایک ہفتے بعد جب یہ مادہ کسی تندرست شخص کو کاٹتی ہے تو پلازموڈیم اس شخص کے خون میں شامل ہو جاتے ہیں تو ملیریا کا حملہ شروع ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ویسٹ نائل وائرس نامی بیماری بھی ایک خاص قسم کے مچھر کیولکس کے کاٹنے سے لاحق ہوتی ہے  ۔

یاد رہے کہ کی پاکستان میں مچھروں کی مختلف اقسام اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر اب تک کوئی تحقیق یا ریسرچ نہیں ہو سکی ۔ اس حوالے سےمستقبل میں یہ ایپ بہت فائدہ مند ہوسکتی ہے۔عوامی حلقوں میں قومی ادارہ صحت کی اس بہترین کا وش کو انتہائی مثبت انداز سے سراہا گیا ہے


این آئی ایچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر برگیڈئیر عامر اکرام نےکہا ہے کہ قومی ادارہ صحت مستقبل میں اس ایپ میں مزید بہتری اور جدت لانے کا عزم رکھتا ہے این آئی ایچ صحت کے حوالے سے عوام میں شعور اجاگر کرنے کے لئے مزید موثر اقدامات کرنے کا خواہاں بھی ہے۔

نازیہ حسن خان قومی ادارہ صحت کے فیلڈ ایپیڈیمیالوجی اینڈ ڈیزیز سرویلنس ڈویژن میں ہیلتھ ایجوکیشن آفیسرکے طورپر خدمات انجام دے رہی ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز