عورتوں کا عالمی دن، یہ میں نہیں ہوں

8 مارچ عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے کچھ تقریبات میں شرکت کے بعد سانس لینے کی فرصت ملی تو فیس بک کا رُخ کیا، جسے کھولتے ہی دل و دماغ ایک دم جھنجنا اُٹھے ۔

عورت مارچ، انتہائی دھوم دھام سے عورتوں کی عزت کا جنازہ نکالنے کی ایک منظم تحریک کی صورت میں نظروں کے سامنے تھی۔ میں گزشتہ 30 سالوں سے باقاعدہ صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوں ۔ایک ایسے وقت میں ملازمت اختیار کی جب آزاد شعبہ خیال کرتے ہوئے لڑکیوں کا صحافت کے شعبے میں آنا معیوب سمجھا جاتا تھا ۔ میں نے اور میرے جیسی بہت ساری لڑکیوں نے ایک ایسے وقت میں اس حساس شعبے کا انتخاب کیا اور بے شمار لوگوں کی اس رائے کو تبدیل کیا کہ اس شعبے میں ”آزاد خیال“ لڑکیاں کام کرتی ہیں۔

ہم نے بسا اوقات دن رات کی تخصیص کے بغیر بھی کام کیا لیکن کسی بھی جگہ اپنی نسوانیت پر آنچ نہیں آنے دی۔ ہم ہر سال 8 مارچ کے دن عورتوں کے حقوق، ان کے مسائل، ان پر کئے جانے والے مظالم، ونی، کاروکاری، جرگے، کم عمری کی شادیوں جیسے سنگین مسائل پر بات کرتے ہیں لیکن اپنی بات کرتے ہوئے کسی بھی قسم کی بے ہودگی کم از کم آج تک میں نے ہوتی نہیں دیکھی تھی۔ شاید ایسا اسلئے بھی ہے کہ ہم انتہائی سنجیدہ اور معتبر طبقے کےساتھ اُٹھنے بیٹھنے والوں میں سے ہیں جن کے نزدیک عورت کی آزادی کے معنی بے حیائی نہیں بلکہ شخصی شناخت ہے۔

عورت آزادی مارچ ملک کے کچھ مختلف حصوں میں منعقد کی گئی۔ میں یہاں بات کروں گی کہ کراچی کے تاریخی فرئیر ہال میں منعقدہ اس مارچ کی جس میں کم و بیش پانچ ہزار خواتین و حضرات شریک ہوئے ۔ اس مارچ میں نوجوان نسل بڑی تعداد میں شامل ہوئی اور انہوں نے مختلف رنگا رنگ بینروں کے ذریعے اس ”آزاد ترین مارچ “ کو رنگین ترین بنانے کا اہتمام کیا۔ اس ”عورت آزادی مارچ“ میں شریک خواتین کے ہاتھوں میں جو بینرز تھے اس میں سے کسی ایک میں خواتین کے حقوق کی بابت کچھ درج نہیں تھا البتہ ان بینرز کے ذریعے بے شرمی، بے غیرتی اور فحاشی نے ضرور فروغ پایا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ”عورت آزادی مارچ“ میں شریک مظاہرین کے ہاتھوں میں موجود پوسٹروں پر درج ”میرا جسم میری مرضی “ جیسے گھٹیا نعروں کو پڑھ کر دل و دماغ پر گہری دھند چھا گئی اور سر شرم سے جھک گیا ۔

گزشتہ چند روز سے ہر فورم پر اس ضمن میں اس حوالے سے لکھا جارہا ہے۔ عورت آزادی مارچ کے خلاف قومی اسمبلی میں توجہ دلاﺅ نوٹس اور تحریک التواء بھی جمع کرائی گئی ہے جس کے متن میں کہا گیا ہے کہ عورت آزادی مارچ کے نام پر فحاشی و بے شرمی کو فروغ دیا گیا جو بینرز اور پوسٹرز چھاپے گئے ان سے مذموم اداروں کا پرچار ہوا۔ عورت آزادی مارچ کے بینرز اور پوسٹرز سے معاشرے میں شدید بے چینی پائی گئی۔ یہ عمل اسلامی تشخص اور قرارداد مقاصد کے خلاف مارچ کے منتظمین اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے لیکن اتنا کافی نہیں ہے کیوں کہ عورت آزادی مارچ کے نام پر جو کچھ ہوا اُس نے پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت کو حیران و پریشان کرکے رکھ دیا کہ آخر کس قسم کی آزادی کی باتیں کی جا رہی ہیں اور کون سے حقوق مانگے جا رہے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں عورتوں کی آزادی کے نام پر ایسی بے شرمی اور بے حیائی کے مظاہرے نے عوام کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں اور انہیں بتا دیا کہ عورت کے حقوق اور آزادی نسواں کے نام پر ایک وہ کھیل کھیلا جا رہا ہے جس کی دین و معاشرے میں کوئی جگہ نہیں۔ انتہائی شرمناک بات یہ ہے کہ مظاہرے میں شریک ایک شخص نے ”نکاح “ کے خاتمے کو خواتین کے مسائل اور ان پر کی جانے والی زیادتی اور ناانصافی کا واحد حل قرار دیا۔

عورت آزادی مارچ کے نتیجے میں کم از کم میں تو یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ اس مظاہرے کے جنسی تخصیص سے مبرا شرکاء عقل و خرد سے بیگانہ وہ لوگ ہیں جو صرف تفریح اور نام نہاد آزادی کے نام پر گھروں سے نکل آئے ،جنہیں اس بات کا احساس تک نہیں کہ جو بینر وہ اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے ہیں وہ عورتوں کی عزت کی حرمت میں اضافے کا نہیں بلکہ گراوٹ کا باعث ہیں۔ مجھے حیرت ہے ان والدین پر جو اپنے بچوں اور بچیوں کی تربیت سے کوتاہی برت رہے ہیں، ماڈرن ازم کے نام پر انہیں وہ آزادی دے رہے ہیں جو ان کی بربادی کا سبب بن رہی ہیں۔کوئی بھی ماں ، باپ یا اس کا کوئی بھی مہذب رشتہ کیسے اپنے ایک پاکیزہ رشتے کو ایسے بے ہودہ پوسٹر تھامے عورت ذات کے نام پر دھبہ لگاتے ہوئے دیکھ سکتا ہے؟ یقیناً یہ گھریلو تربیت کا فقدان ہے جس نے احساس کے انداز کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ ہم شرمندہ ہیں اپنی نئی نسل سے کہ ہم انہیں شعور کی وہ گہرائی و گیرائی نہیں دے پائے جو ان کا حق تھی ۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے اس حوالے سے فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے سخت اعتراضات اُٹھائے اور فوری طور پر ایک حلقہ اس بے ہودگی کے خلاف سرگرم عمل ہوگیا اور ہر ذی شعور عورت نے ایسے لوگوں اور ایسے ہر اقدام کے خلاف علم بلند کردیا جو عورت کو اس کے اصل مقام سے گرانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

صنفی مساوات کا مطلب کسی بھی صورت میں مادرپدر آزاد ہوکر مردوں کے مقابل آجانا نہیں ہے بلکہ عورتوں کے حقوق یا صنفی مساوات کا مطلب کچھ ایسی جگہوں پر جہاں مذہب نے گنجائش رکھی ہے، لیکن معاشرتی سطح پر ناانصافی کے خلاف بات کرنا ہے ۔

یہ درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا، انہیں استحصال اور حقوق کی پامالی کا سامنا ہے۔ یہ بھی تسلیم ہے کہ اپنے حقوق کےلئے آواز اُٹھانا ضروری ہے، اٹھانی بھی چاہیے، معاشرے اسی طرح سے بہتری کی جانب جاتے ہیں لیکن اس عمل کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا جانا جو عورت آزادی مارچ کے نام پر اختیار کیا گیا ناقابل قبول ہے۔ ہمارا معاشرتی نظام ہمارے دین کی عطا ہے اور ہماری خواتین ہمارا فخر ہیں اور ہمارے بھائی، باپ اور شوہر ہماری چادریں ہیں۔ انہیں گالیاں دینا، عورتوں کی آزادی کے حوالے سے فضول اور بے ہودہ جملے کہنا یہ ہماری اقدار نہیں۔ میں کم از کم اس روش پر چلنے والی عورت نہیں اور میں جانتی ہوں کہ میرے اردگرد ہزاروں ایسی عورتیں ہیں جو اپنے تقدس کی حفاظت کا ہنر جانتی ہیں، نہیں جانتیں تو بس وہ مٹھی بھر عورتیں جنہیں عورتوں کے مقام کا علم ہی نہیں۔


ہم نیوز یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ٹاپ اسٹوریز