عورت کامیابی کا استعارہ…پھر ایسا کیوں؟

چند روز قبل ملک کے وزیر خزانہ اور پاکستان تحریک انصاف کے پڑھے لکھے رہنماؤں میں شمار ہونے والے اسد عمر نے قومی اسمبلی میں بلاول بھٹو زرداری پر تنقید کرتے ہوئے ایسی باتیں کہہ دیں کہ جن پر افسوس سے زیادہ حیرت ہو رہی ہے کہ ظاہری طور پر ایک پڑھے لکھے سیاستدان جنہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ کارپوریٹ سیکٹر میں گزارا، ان کی جانب سے انتہائی غیر زمہ دارانہ اور نامناسب الفاظ استعمال کیے گئے۔ اسد عمر صاحب نے بلاول بھٹو زرداری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بلاول اپنی والدہ کا نام کیوں استعمال کرتے ہیں؟ زرداری قبیلہ تو بہت غیور قبیلہ ہے، کیا بلاول کو یہ نام استعمال کرتے ہوئے شرم آتی ہے؟

نہ تو بلاول بھٹو کے نام پر پہلی مرتبہ اس طرح کی تنقید کی جا رہی اور نہ ہی پاکستانی سیاست اور سیاستدان ذہنی بلوغت کے اس درجے پر فائز ہیں کہ اس طرح کے بیانات کا آنا ایک حیران کن بات ہو۔ لیکن اسد عمر کی جانب سے اس طرح کی تنقید اور پھر وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ایک جلسے میں اسی خیال کی توثیق ضرور اچھنبے کی بات ہے۔ اس طرح کے بیانات صرف ہماری سیاست ہی نہیں، بلکہ ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی چھوٹی سوچ کی بھی عکاسی کرتے ہیں اور یہ سوچ صرف ان پڑھ لوگوں میں ہی نہیں بلکے پڑھے لکھ جاہلوں میں بھی کثرت سے پائی جاتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا ماں کا نام کسی شخص کے لئے شرمندگی کا باعث ہو سکتا ہے؟ کیا ماں کا رشتہ اتنا کمزور ہے کہ ماں کا نام استعمال کرنے والا غیرت مند نہیں رہتا؟ کیا کسی شخص کی تربیت اور شخصیت سازی میں سب سے بڑا ہاتھ اس کی ماں کا نہیں ہوتا؟ کیا وہ رشتہ کہ اپنی محبت بیان کرنے کے لئے خدا نے جس کی محبت کو پیمانہ بنایا، اتنا ہی حقیر ہے کہ اس پہ فخر کرنے والے کی ملکی پارلیمان میں تضحیک کی جاۓ؟ اور کیا قیامت کے دن ہر فرد کو اس کی ماں کے نام سے نہیں پکارا جاۓ گا؟

بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اسد عمر صاحب نے بلاول بھٹو کو الیکشن ہرانے والے کو “نر کا بچہ” قرار دیا. یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہمارے سیاست دان آئے روز ‘مرد بنو، عورت کی طرح گھر بیٹھ گئے، چوڑیاں پہننے، اور عورت کی طرح رونے’ جیسے کلمات استعمال کرتے رہتے ہیں۔ یہ جملے ہمارے معاشرے میں جس قدر عام ہیں اتنے ہی مہلک بھی ہیں۔ یہ ہمارے لاشعور میں کہیں نہ کہیں اس خیال کو پختہ کر دیتے ہیں کہ عورت کمزور ہے اور مرد کو اس پر فوقیت حاصل ہے۔ جبکہ پاکستان کی بیٹیاں گزشتہ چند دہائیوں میں یہ ثابت کر چکی ہیں کہ یہاں کی خواتین نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر مردوں سے کسی صورت بھی کم نہیں ہیں.

آج ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں جہاں عورت مرد سے اگر بہتر نہیں تو اس سے کم تر بھی نہیں ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ عورت کو کمزوری کے استعارے کے طور پر استمال کرنا بند کر دیا جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اگر کوئی سیاست دان بلاول بھٹو زرداری کی طرح اپنے والد اور والدہ کا نام استعمال کرنا چاہے، عمران خان کی طرح اپنے والد کا نام نہ استعمال کرنا چاہے یا پھر مریم نواز کی طرح شوہر کے بجائے والد کا نام استعمال کرنا چاہے تو اسے اس فیصلے کا حق دیا جائے اور ایسے معاملات پر تنقید کی جائے جن سے ملک اور عوام کا کوئی فائدہ بھی ہو۔

نوٹ:ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

ٹاپ اسٹوریز