نسل آدم کا خون ہے آخر۔۔۔۔

عقل والوں کے نصیبوں میں کہاں ذوقِ جنوں
یہ عشق والے ہیں ،جو ہر چیز لٹا دیتے ہیں

بات یہاں اس عشق کی ہے جو کشمیریوں کی رگوں میں جنون بن کر دوڑتا ہے۔ انسانی حقوق کا راگ الاپنے والے کسی طرم خان میں وہ دم خم نہیں کہ اس صدائےحق کو دبا سکے۔ ہم ذوق جنوں سے عاری  بزعم خود وہ صاحب عقل لوگ ہیں جو کئی دہائیوں سے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ تو لگاتے ہیں مگر دہائیاں گزر گئیں کشمیر کو خود مختاری تک نہ دلا سکے۔

ہم اپنی نئی نسل کو کشمیر کی خوبصورتی کی مثالیں دیتے ہیں لیکن اس جنت نظیر وادی کے گلی کوچوں سے آنے والی خون کی بساند کو بھول جاتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ سینکڑوں بیواؤں ، یتیموں اور شہیدوں کا خون ہم پر قرض ہے۔

ایک طرف کشمیر کا بچہ بچہ اپنے خون سے اس جدوجہد کو سینچ رہا ہےتو دوسری طرف پاکستان میں آنے والی ہر نئی حکومت اقوام متحدہ میں ایک تقریر کرنے کے بعد بری الزمہ ہو جاتی ہے اور باقی کے پانچ سال قتل و غارت گری پر صرف مذمتی بیان دے کر فرض پورا کیا جاتا ہے۔
اس ستم ظریفی پر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ہم اور کیا ہونے کا انتظار کریں گے؟ کب کوئی سنجیدہ کوشش ہوگی اس خونریزی کو بند کرنے کی؟؟ کب تک اقوام متحدہ کی پرانی قراردادوں کے حوالے دے کر ہر آنے والی حکومت تقریریں  کریگی؟

جب لوگ یہ کہتے ہیں خدا دیکھ رہا ہے
میں سوچنے لگتی ہوں  کیا دیکھ رہا ہے؟؟

یہ معاشرتی ناانصافی کیوں ختم ہو کے نہیں دیتی؟؟ کیوں ہماری بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اب یہ ظلم و دہشتگردی معمول بن چکا ہے اور بھارت کے لیے اقوام عالم کا رویہ کچھ یو ں ہے کہ’’ حضور کا شوق سلامت رہے! شہر اور بہت‘‘ کیوں کہ شہر تو اب جل ہی چکا ہے۔۔۔ آگ تو لگ ہی چکی ہے۔

ٹاپ اسٹوریز