پانی کے عالمی دن پر کچھ اہم باتیں

عمومی تصور ہے کہ پانی قدرت کا عظیم تحفہ ہے، پانی جونہ صرف انسانی زندگی کی بقا کیلئے ضروری ہے بلکہ جانوروں، چرند پرند، درختوں، پودوں اور پھولوں کے پھلنے پھولنے کے لئے بھی اہم ترین جزو ہے۔طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم میں 60 فیصد حصہ پانی کا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتاہے کہ 71 فیصد کرہ ارض بھی پانی پرہی مشتمل ہے۔
پانی کی اسی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے ہر سال 22 مارچ کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں پانی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس دن کا آغاز 1992 میں برازیل کے شہر ریو ڈی جنیریو میں اقوامِ متحدہ کی ‘‘ماحول اور ترقی’’ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس کی سفارش پر ہوا تھا جس کے بعد 1993 سے ہر سال 22 مارچ کو اس دن کومنایا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں 2.1 ارب انسان پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں۔ہر 4 میں سے 1 سکول میں پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔روزانہ 700 بچےپانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے قبل ہی ڈائریا کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں ۔

دنیا بھر کے80 فیصد افراد جو دیہاتوں میں آباد ہیں غیر صحتمندانہ ذرائع سے پانی حاصل کر کے استعمال کر رہے ہیں۔159 ملین لوگ تالابوں اور ندی نالوں سے پانی حاصل کرتے ہیں۔دنیا بھر میں 700 ملین افراد کو شدید پانی کی کمی سے 2030 تک بے گھر ہونے کا خطرہ بھی لاحق ہو چکا ہے۔

دیکھا جائے تو ایک طرف جہاں پانی زندگی کی بنیادی اکائی ہے وہاں دوسری طرف پانی کی کمیابی اور آلودگی، صحت مند زندگی کے لئےشدید خطرہ ہیں۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان کو بھی ماحولیاتی آلودگی، موسمیاتی تبدیلیوں، گلوبل وارمنگ، پانی کی آلودگی اور کمی جیسے مساٗئل نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ان مسائل نے انسان کی اقتصادی اور معاشرتی زندگی ہی نہیں بلکہ اس کی صحت کو بھی بری طرح متا ثر کر رکھا ہے۔

آلودہ پانی ناصرف انسانوں بلکہ جانوروں اور پودوں کے لئے بھی بہت خطرناک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 85 فیصد آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ گھروں کے نل میں آنے والا پانی ہو یا ٹیوب ویلز، فلٹریشن پلانٹس ہوں یا پھر بوتلوں کا پانی(منرل واٹر)صحت کے لئے مضر ہوتے جا رہے ہیں۔ زیر زمین سیوریج لائنز اور صاف پانی کی پائپ لائنز مل جانے کی وجہ سے بھی پانی آلودہ ہو رہا ہے۔

سیوریج سسٹم کے نقائص تو ایک طرف ہمارے ملک کے ندی، نالے، نہریں، دریا، جھیلیں اور سمندر بھی آلودہ ہوتے جارہے ہیں ۔دوسری طرف جدید صنعتوں نے بھی پانی کی آلودگی کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
پاکستان میں صاف پانی کی کمی اور نکاسی آب کا مناسب نظام نہ ہونے کی وجہ سے بیماریاں بڑھتی جا رہی ہیں ۔ہر سال آلودہ پانی پینے سے سینکڑوں افراد ٹائفائیڈ، ہیضہ، اسہال، ہیپاٹائٹس اے اور ای جیسی موذی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ملکی معیشت کا ڈیڑھ فیصد اسپتالوں میں پانی سےپیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج پرخرچ ہو رہا ہے۔

پانی میں کیلشیم، نمکیات، منرلز، فلورائیڈ اور آئرن ایسے مفیدعناصر کے ساتھ ساتھ آرسینیک یعنی سنکھیاجیسے مضر صحت عناصر بھی موجود ہوتے ہیں ۔ جدید دنیامیں مفید اور مضر صحت عناصر کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لئے پانی کو لیبارٹری سے ٹیسٹ کروانا ضروری تصورکیا جاتاہے ہے۔
صحت مند طرز زندگی کو فروغ دینے کے لئےقومی ادارہ صحت کا نیوٹریشن ڈویژن پانی کی جانچ کے لئے خدمات انجام دے رہا ہے۔ یہ ادارہ پانی کی کوالٹی چیک کرنے کے لئے واٹر کیمیکل ٹیسٹنگ کی سہولت فراہم کررہا ہے ۔

این آئی ایچ کے اس اقدام کے تحت پینے کےپانی میں نمکیات، فلورائیڈ، آئرن، کیلشیم اور آرسینک وغیرہ کی مقدار کی جانچ کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ مائیکروبیالوجیکل ٹیسٹ کے ذریعے پانی میں موجود انفیکشن کے جراثیموں کو بھی جانچا جاتا ہے۔ کیمیائی آلودگی، ہیوی میٹل ٹیسٹنگ ، پیسٹیسائیڈز وغیرہ کی موجودگی کا پتہ بھی چلایا جاتا ہے۔ہیوی میٹل ٹیسٹنک میں یہ جانچ کی جاتی ہے کہ آیا پانی میں کوپر ، لیڈر اور کوبالٹ وغیرہ تو موجود نہیں؟

پانی کے عالمی دن پر کچھ اہم باتیں
فوٹو بشکریہ این آئی ایچ

اگر آپ کسی دریا، نہر ،ندی ،تالاب جوہڑ،کنویں، ٹیوب ویل یا گھرکے کسی نل بورنگ، واٹر ٹینک یا بوتلوں میں دستیاب پانی چیک کرانا چاہتے ہیں تویاد رہے کہ اس کے لیے پانی کی ایک خاص مقدار درکارہوتی ہے۔ یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ یہ پانی این آئی ایچ سے ہی حاصل کردہ کانچ کی اسٹیرلائزڈ بوتل میں فراہم کرنا ضروری ہے۔
اس حوالے سے انتہائی اہم بات یہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں عام استعمال کے صاف پانی کی دستیابی ایک مسئلہ ہے وہاں پانی کے ٹیسٹ کے مسائل بھی موجودہیں۔ ملک بھر میں پانی کا معیار چیک کرنے کے لیے مستند لیبارٹریزکی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ مزید یہ کہ پانی کے ٹیسٹ اگر پرائیویٹ لیبارٹریز سے کرائے جائیں تو اخراجات پانچ سے دس ہزار روپے تک چلے جاتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں قومی ادارہ صحت انتہائی ارزاں نرخوں پر یہ خدمت انجام دے رہاہے۔

نازیہ حسن خان قومی ادارہ صحت میں ہیلتھ ایجوکیشن آفیسر کے طورپر خدمات انجام دے رہی ہیں

ٹاپ اسٹوریز