بہاولپور:استاد کا اصل قاتل کون ہے؟

بہاولپور:استاد کا اصل قاتل کون ہے؟

گزشتہ سات دن سانحات  سے  جڑے ہیں  ۔ پندرہ مارچ کی صبح دفاعی تجزیہ نگار اور سوشل میڈیا کی معروف شخصیت بریگیڈئر ریٹائرڈ اسد منیر کی خودکشی کی خبر کے ساتھ شروع ہوئی ۔ پندرہ مارچ کے دن کا اختتام نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملے کی خبر کے ساتھ ہوا۔

اگرچہ اسد منیر کی خودکشی کا واقعہ انفرادی تھا  لیکن  نیب کے خلاف ان کی خودکشی کے نوٹ نے میڈیا اور سوشل میڈیا پر  احتساب کے نام پر کی جانے والی زیادتیوں کے حوالے سے بحث کا ایک دروازہ کھول دیا۔

نیوزی لینڈ میں مسجد پر حملے میں پچاس کے قریب مسلمان شہید ہو گئے ۔جن میں 9 پاکستانی بھی شامل تھے۔ اس واقعے نے بالخصوص مغربی دنیا کو شدید متاثر کیا۔

تیسرا اندوہناک واقعہ بیس مارچ کو پیش آیا ۔ جب بہاولپور میں ایک  طالب علم نے اپنے انگریزی کے استاد جناب خالد حمید کو اس بنیاد پر قتل کر دیا۔کہ دیگر طلبہ ان کی نگرانی میں اپنے سالانہ فنکشن کی تیاری میں مصروف تھے ۔ قاتل طالب علم  نے اقبالی بیان میں کہا کہ  اس طرح کی پارٹیاں غیر اسلامی ہیں۔ مبینہ طور پر طالب علم کا تعلق تحریک لبیک سے بتایا جاتا ہےجس کے سربراہ  مولانا خادم رضوی دہشت گردی کے الزامات کی پاداش میں  میں جیل میں ہیں۔

صادق ایجرٹن کالج کے انگریزی کے  یہ استاد طلبہ میں اپنی قابلیت اور متحمل مزاجی کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔  ان کے ایک شاگرد نے اپنی فیس بک پوسٹ پر قتل کرنے والے طالب علم  کے بارے میں  لکھا کہ ’’خطیب حسین پانچویں  سمسٹر کا طالب علم ہے یعنی میرا جونئیر، یزمان کا رہائشی یہ لڑکا مولانا خادم حسین کا پیروکار ہے۔ اسکے کلاس فیلوز بتاتے ہیں کہ پچهلے چھ مہینوں سے اس کا انداز تهوڑا مختلف ہو گیا  تھا۔ مذہبی انتہاپسندی پر مبنی باتیں کرتا واٹس ایپ گروپ میں دوستوں کی ہنسی مذاق کی گپ شپ کو بهی حرام قرار دیتا اور ایک بار تو مولانا خادم کا فتوی پیش کیا کہ ہنسنا حرام ہے پڑهنے میں بہتر تها کلاس میں خاموش رہتا۔‘‘

قابل غور بات یہ ہے کہ  خود مولانا کے اپنے خطابات پنجابی ادب کی صنفی گالیوں سے مزین ہوتے ہیں اور ان پر شائقین دوران تقریر دل کھول کر ہنستے بھی ہیں۔

اسکولوں اور کالجوں  میں پڑھنے والے یہ طلبہ نہ  خود مفتی ہوتے ہیں نہ ہی مذہب پر  ان کا مطالعہ اتنا وسیع ہوتا ہے جس کی بنیاد پر وہ خود ہی  کسی کو قتل کرنے جیسا انتہائی اقدام  کرگزریں  ۔ اس عمل کے پیچھے وہ سوچ کار فرما ہے جو اپنے معاش کی خاطر ، ناپختہ ذہنوں کا انتخاب کر کے ان کو ایسے جارحانہ اقدام کی  جانب  ترغیب دیتے ہیں ۔

پیٹ کے یہ پجاری  مذہب کا استعمال کر کے انتہا پسند سوچ کو مدرسوں، اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اس لئے زندہ رکھتے ہیں کہ وہ جب چاہیں اس کا استعمال کر کے ریاست کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور  کرسکیں۔  یہ  خطیب مذہب کےان نازک پہلوؤں کو استعمال کرتے ہیں  جن پر ایک عام مسلمان بغیر کسی تحقیق کے جذبات میں آ کر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجا تا ہے ۔

یہ خطیب معاشی نظام سے متعلق ان  مذہبی پہلوؤں کو چھیڑنے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں جن کے بل بوتے پر ان کے چندے کا نظام کھڑا ہوتا  ہے ۔  مثال کے طور پر منبرسے الا ماشاٗ اللہ ایسا  کم کم سننے کو ملتا ہے کہ  ملاوٹ کرنا ، کم تولنا ، کاروبار میں قسمیں کھانا، جھوٹ بولنا ، رشوت اور سود  کا لین دین  کرنا، بد اخلاقی سے پیش آنا ، اپنے کام میں بد دیانتی کرنا ، دفتر لیٹ آنا ، وعدہ پورا نہ کرنا،  محلے کی صفائی نہ   رکھنا  سب کام مذہب کے  مخالف ہیں ۔

اور یہ سارے ایسے امور ہیں جن پر معافی تب ہی دی جائے گی جب تک متاثرہ فرد معاف نہ کر دے ۔ لیکن چونکہ ان امور میں جذبات کو برانگیختہ کرنے والا کوئی نعرہ وجود میں نہیں آ سکتا اس لئے مذہب   کو اپنے مسلکی اور معاشی  معاملات کے لئے استعمال کرنے والے ان  امور کے بارے میں ایسے فتوے صادر کرنے یا تقریریں کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔جن کو مدنظر رکھتے ہوئے خدانخواستہ کوئی انتہائی اقدام پر مجبور ہو جائے۔

ہمارے ہاں ایک مثل (محاورہ) ہے کہ ’’جتھے پتر نورجمال ، کھوتا کھرکا سب حلال ‘‘ یعنی جب اپنے بیٹے کی بات ہو تو سب حلال ہو جاتا ہے ۔  ایک وقت تھا کہ علماءنے  ٹیلی ویژن ، مائیک ،  تصویر، پرنٹنگ پریس پر مذہب سے متعلق کتابوں کی چھپائی ،  وی سی آر، انٹرنیٹ اور اس سے جڑا سوشل میڈیا  سب کا سب حرام قرار دیا تھا۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ علماٗ  نے اپنی ضروریات  کے  مطابق   قطع  نظر اس کے ، کہ وہ صحیح ہیں یا  غلط    ان  امور کو جائز قرار دے دیا  لیکن   ماضی  قریب میں ان چیزوں کی حرمت کی وجہ سے لوگوں کو  معاشی ،جانی اور مالی  نقصانات  اٹھانے پڑے ۔

خالد حمید جیسے قتل کے واقعات شاید دنیا میں کہیں بھی پیش آ سکتے ہیں  لیکن اس امر کا مشاہدہ ضروری ہے کہ ایسے واقعات کے بعد عمومی رد عمل کس طرح  ہوتا ہے ۔ اگر رد عمل   نیوزی لینڈ کی طرح ہو ۔ کہ جس کی وزیر اعظم قاتل کا نام تک لینا گوارا نہ کرے  اور دس دن کے اندر اندر نیا قانون لے آئے تو سمجھ لیں کہ ریاست اور ریاست  کے لوگ درست سمت  کی طرف گامزن ہیں  اور اگر ردعمل یہ ہو کہ قاتل کو ٹیلی ویژں پر  ہیرو بنا کر پیش کیا جائے تو پھر  انجام کا اللہ ہی حافظ ہے۔

امجد قمرفری لانس جرنلسٹ، کمیوینیکیشن ایکسپرٹ اور بلاگر ہیں جو سیاست اور سماجی موضوعات پر لکھتے ہیں۔

ٹاپ اسٹوریز