پیپلزپارٹی کا احتساب ،عرفان منگی کا تبادلہ اورنیب کی اندرونی جنگ

ظاہر شاہ کو ڈپٹی چیئرمین نیب تعینات کرنے کا حتمی فیصلہ

قومی احتساب بیورو (نیب) میں میاں برادران سمیت بہت سے لیگی رہنمائوں کے نہ صرف کیسز چلے بلکہ گرفتاریاں ، سزائیں اور جرمانے بھی ہوئے ۔حکومتی وزراء کی بات کریں تو شاید یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ سب سے بڑے صوبے پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان جن کو موجودہ وزیراعظم عمران خان کا خاص آدمی سمجھا جاتا ہے وہ بھی نیب کی حراست میں ہیں اور انہیں عدالتوں سے تو ضمانت تک نہیں مل رہی ۔
وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر اعلی خیبر پختونخوا محمود خان، صوبائی وزیر عاطف خان سمیت خود وزیراعظم عمران خان نیب کے کیسز کی زد میں ہیں اور پیشیاں بھی بھگت رہے ہیں پھر بھی نیب میں سب اچھی طرح سے چل رہا تھا ۔
یہ اچانک سے کیا ہوا جیسے ہی پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت پر نیب کا شکنجہ تنگ ہوا تو بلاول زرداری خود چل کر کوٹ لکھپت جیل میں ماضی کے اپنے سب سے بدترین سیاسی حریف نوازشریف سے عیادت کے بہانے ملنے گئے اور “اقتتدار میں گریبان ، مشکل میں پاوں پکڑنے” کی مثال کو خود ہی سچ کر دکھایا۔ بلاول کے اس عمل کو کچھ حلقوں کی جانب سے یوٹرن بھی کہا جا رہا ہے ۔
پیپلز پارٹی کے بڑوں کی نیب میں پہلی پیشی ہی برداشت سے باہر ہو گئی اور پیشی کے فوری بعد کالعدم تنظیموں کے نام پر پاکستان اور پاک فوج کے خلاف سخت بیانات دیے گئے  مگر شاید بلاول کو ان کے دائیں بائیں والوں نے یہ نہیں بتایا کہ حامد میر کا اسامہ بن لادن سے مشہور زمانہ انٹرویو بھی بلاول بھٹو کی والدہ کے دور حکومت میں ہی ہونا طے ہوا تھا۔ اسامہ بن لادن تک رسائی کسی اور کی وجہ سے نہیں بلکہ بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر اور اس وقت کے ڈی جی ایف آئی اے اور ان کے والد جناب سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں وزیر داخلہ رحمان ملک کی وجہ سے ممکن ہوئی ۔ حامد میر اس انٹرویو کے لیے نصیر اللہ بابر اور بے نظیر بھٹو کے شکر گزار بھی ہیں۔
یہ تمام باتیں آن ریکارڈ ہیں جس کی گواہی آج بھی حامد میر صاحب دیں گے ۔
اب سوال یہ ہے کہ ایسے وقت میں ٹرین مارچ کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کو حکومت پر دباو ڈالنے کا ایک حربہ کہیں تو شاہد غلط نہ ہو گا ۔ نوازشریف کو سندھ بلا کر ان کا علاج کرانے کی پیشکش کرنے کی نوبت بھی شاید نواز شریف کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے ہی پیش آئی مگر بلاول کو تقریر لکھ کر دینے والوں نے شاید یہ کبھی نہیں بتایا کہ ”جنگ کے بعد جو مکا یاد آئے وہ اپنے منہ پر مار لینا چاہیے”۔
جی ٹی روڈ ریلی کے وقت بلاول زرداری اگر نوازشریف کے ہمرکاب ہو جاتے تو شاید آج ان کو ٹرین مارچ کرنے کی ضرورت ہی نہ پیش آتی ۔ مگرغور طلب بات یہ ہے کہ یہ سب کرنے کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ سب جمہوریت بچانے کے لیے کیا جا رہا ہے؟ کیا جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہوگیا ہے ؟ اگر جمہوریت کو واقعی عمران حکومت سے خطرہ ہے تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ والے اس حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے میں تعاون کرنے کے اشارے کیوں دے رہے ہیں؟کہیں اس تعاون کی پیشکش کی اصل وجہ احتساب سے بچنا تو نہیں ہے؟ کہیں پیپلزپارٹی کو اپنی سیاست مزید کمزور ہونے کا ڈر تو نہیں ہے؟ حکومت پر دباو ڈالنے کے لیے قومی اسمبلی کو نہ چلنے دینے،اپوزیشن کو اکٹھا کرنے ، جلسے، جلوس ،ٹرین مارچ اور سخت بیانات دینے کا حربہ تو شاید کام نہ آیا ۔ پیپلزپارٹی کی پوری کوشش تھی کہ جعلی بنک اکاونٹس کیس راولپنڈی کے بجائے کراچی میں چلے مگر ان کی یہ خواہش بھی عدالتی فیصلے کی وجہ سے خواہش ہی رہی۔
اب پیپلزپارٹی نے احتساب سے بچنے کے لیے ایک اور پتہ کھیل دیا ہے جس کا اثر بھی نظر آنا شروع ہو گیا ہے اس بار پیپلزپارٹی کا نشانہ نیب ہے ۔برگیڈئیر ریٹائیرڈ اسد منیر کی خودکشی معاملہ انسانی حقوق کا ہے اور چیف جسٹس آف پاکستان نے معاملے پر از خود نوٹس بھی لے رکھا ہے مگر پھر بھی پیپلزپارٹی نہ صرف اس ایشو پر سیاست کرتی نظر آئی بلکہ چیئرمین نیب کے استعفی کا بار بار مطالبہ کیا جس کا مقصد نیب پر دباؤ ڈالنا تھا کیونکہ یہ معاملہ بھی نیب راولپنڈی بیورو کا ہے اور اس وقت عرفان منگی اس بیورو کے ڈی جی ہیں …
باوثوق ذرائع کے مطابق پیپلزپارٹی نے نیب کے اندر موجود اپنی لابی کو نہ صرف متحرک کیا ہے بلکہ وہ لابی اب بہت مضبوط نظرآ رہی ہے اور اس نے اپنا کام دکھانا بھی شروع کر دیا ہے ۔
نیب ہیڈ کوارٹر اور جعلی بنک اکاونٹس کیس کی تحقیقات کرنے والے نیب راولپنڈی بیورو میں اس وقت جنگ کا سماں ہے جو کہ چیرمین نیب جاوید اقبال کے لیے کسی امتحان سے کم نہیں ہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کے “اینٹ سے اینٹ بجا دینے” کے بیان کے بعد “سندھ کے منگی” والے بیان کا مقصد صرف بیان بازی نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے ہاتھ ہلکا رکھنے کا ایک پیغام تھا ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان منگی نے نہ صرف اس پیغام کو رد کیا ہے بلکہ یہ واضع کیا ہے کہ وہ سر نہیں جھکائیں گے بلکہ جو کرپشن کرے گا اس کو نہیں چھوڑیں گے۔

ذرائع کہتے ہیں کہ عرفان منگی کو ان کا تبادلہ کرنے کا پیغام بھی پہنچایا گیا ہے اور اب شاید پیپلزپارٹی اور ن لیگ کا مقصد عرفان منگی کا تبادلہ ہی ہے کیونکہ ان کے ماتحت بیورو میں نہ صرف جعلی بنک اکاونٹس کیس کی تحقیقات چل رہی ہیں بلکہ لیگی رہنمائوں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف سمیت اہم شخصیات کے خلاف کیسز بھی چل رہے ہیں ۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ عرفان منگی نے واضع پیغام دیا ہے کہ تبادلہ منظور ہے مگر سمجھوتہ نہیں کرینگے ۔ ایسے وقت میں عرفان منگی کا تبادلہ نیب کے شکنجے میں آئے تمام افراد کو کلین چٹ دینے کے مترادف ہوگا کیونکہ جو سمجھ ان کیسز سے متعلق عرفان منگی کی ہے وہ کسی اور ڈی جی کی نہیں ہے۔

چیئرمین نیب جاوید اقبال کو بھی جان سے مارنے کی دھمکیاں مل رہی ہیں مگر اس دبائو کے باوجود ابھی تک وہ بھی ڈٹے ہوئے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ چیرمین نیب “احتساب سب کے لیے” اور “فیس (FACE) نہیں کیس” کا صرف دعوی کرتے ہیں یا اس پر عمل بھی کریں گے؟ بال اب چیرمین نیب جاوید اقبال کے کورٹ میں ہے اور وہ ان حالات سے کیسے نمٹتے ہیں یہ ہی ان کا اصل امتحان ہے۔

 

نوٹ: ہم نیوز کا لکھاری کی رائے سے متفق ہوناضروری نہیں ہے

ٹاپ اسٹوریز