پنجاب پولیس میں  خواتین  اہلکاروں کی برطرفی اور شخصی آزادی کا سوال

پاکپتن: یونیفارم میں رقص کرنیوالی خاتون کانسٹیبل برطرف

آج پنجاب سے خبر آئی ہے کہ گزشتہ برس ڈیوٹی کے دوران رقص کرنے والی خاتون کانسٹیبل ثناء تنویر کو ملازمت سے برطرف کر دیا گیاہے۔ خبر کے مطابق ثنا تنویر کے ساتھ  ساتھ موبائل فون سے اس کے رقص کی ویڈیو بنا نے والی کانسٹیبل  کو بھی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے ہیں۔
کانسٹیبل ثناء تنویر کی ویڈیو  2018ء میں وائرل ہوئی جب وہ دربار بابا فرید کی سیکیورٹی پر مامور تھی ۔دوران ڈیوٹی خاتون کانسٹیبل ثناء تنویر نے یونیفارم میں رقص کیا،جبکہ اس کی ساتھی کانسٹیبل امبرین ویڈیو بناتی رہی۔
رقص کی ویڈیوسوشل میڈیاپروائرل ہوتے ہی اعلیٰ افسران نے واقعے کا نوٹس لیاتھا دونوں کو  معطل کردیا گیا تھا۔
اس واقعے کی چار ماہ انکوائری چلی جس کے بعد ڈی پی او نے دونوں لیڈی کانسٹیبلزکو برطرف کردیا ۔

اس حوالے سے پاکپتن پولیس کے ترجمان کی طرف سے ڈی پی او ماریہ محمود کا بیان بھی میڈیا کو جاری کیا گیاہے۔

ڈ سٹرکٹ پولیس آفیسر پاکپتن ماریہ محمود کا لیڈی کنسٹیبللان کی برخاستگی کےحوالے سے کہنا ہے کہ محکمہ پولیس ایک مقدس پیشہ ہے،پولیس یا کوئی بھی دیگر یونیفارم والا ادارہ ایک ڈسپلنڈ ادارہ ہوتا ہے اور معاشرے میں نہایت قابل احترام تصور کیا جاتا ہے جن کا حصہ بننا  جہاں نہایت قابل فخر اور معاشرے میں اعلٰی روایت قائم کرنے کے مترادف ہےوہاں ایسے ادارے کا حصہ ہوتے ہوئے دوران ڈیوٹی خلاف ڈسپلن فعل کرنے سے عوام الناس میں اس ادارے کا منفی تاثر ابھرتا ہے ۔

اس ادارےمیں اہلکاروں کے لئےمردیا عورت کی بنیاد پرتحضیص نہ ہے بلکہ بحیثیت خاتون محکمہ پولیس میں سروس کرتے ہوئے ان کے شانوں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ چونکہ وہ دیگر خواتین کے لیے تحفظ اور انصاف کا استعارہ ہوتی ہیں ایسے میں خواتین اہلکاروں کا یونیفارم میں غیر پیشہ وارانہ حرکات اور افعال کو نہ صرف ایسے قابل احترام اداروں کے منفی تاثر کو اجاگر کرتا ہے بلکہ دیگر تعلیم یافتہ خواتین کی ایسے اداروں کو جوائن کرنے میں حوصلہ شکنی کا باعث بنتا ہے۔

ہر دو لیڈی کنسٹیبللان کے خلاف محکمانہ کاروائی سے پہلے باقاعدہ انکوائری عمل میں لائی گئی  اور انکوائری میں حسب ضابطہ مسکنڈکٹ ثابت ہونے پر محکمہ سے برخاست کیا گیا۔

پاکستان میں پولیس اہلکاروں کی طرف سے رقص ،دھمال یا جھومر ڈالنے کی درجنوں وڈیوز موجود ہیں ۔ مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جس میں پنجاب پولیس نے انتہائی اقدام کا مظاہرہ کیاہے۔

دنیا بھر میں اس طرح کی سینکڑوں وڈیوز سوشل میڈیا پر موجود ہیں مگر کہیں سے اس طرح کی خبر یں نہیں آتیں۔

امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں ایک خاتون پولیس آفیسر نے اپنے رقص کے ذریعےایک ایسی لڑائی کو ڈی فیوز کیا تھا جس میں کچھ نوجوان آپس میں دست وگریبان ہونے کو  تھے۔ خاتون پولیس آفیسرنے نوجوانوں کواپنے رقص کے ذریعے متوجہ کیا ، ان سے مقابلہ کیا اور شرط باندھی کو جو جیتا وہ اس جگہ پر رہے گا باقی علاقہ چھوڑ جائینگے۔ لڑائی  میں شامل ایک لڑکی نے یہ شرط قبول کی اور دونوں محو رقص ہوگئے ، کچھ دیر بعد دونوں تھک گئے اور دونوں نے ہی خود کو ونر قرار دیتے ہوئے علاقہ ہنسی خوشی چھوڑ دیا۔ خاتون پولیس آفیسر اس موقع پراگر رقص نہ کرتی تو خون خرابے کا خطرہ موجود تھا۔

اس وقت واشنگٹن پولیس چیف  نےوائرل ویڈیو سے متعلق کہا تھا کہ ضلعی پولیس آفیسر نے مثبت طور پر نوجوانوں کو مشغول کیا  اور تنازعے کو حل کرنے کا مناسب طریقہ اختیار کیا۔ انہون نے کہا کہ اس طرح کی مثبت کمیونٹی پولیسنگ معمول کی بات ہے اور واشنگٹن، ڈی سی میں روزانہ  کا معمول ہے۔

اپریل دو ہزار تیرہ میں یوٹیوب پر سڈنی میں فلمائی گئی ایک وڈیو بھی  ان سینکڑوں وڈیوز میں سے ایک ہے جس میں  ایک بزرگ شہری چوک میں خاتون پولیس اہلکار کے ساتھ محو رقص ہے ۔ بزرگ ایک چوک میں رقص کررہے ہیں  وہاں  تعینات چند پولیس آفیسرز میں سے ایک  خاتون آفیسر اس بزرگ کا ساتھ دینے کے لیے میدان میں آتی ہیں اور دونوں خوب رقص کرتے ہیں۔ خاتون پولیس آفیسرکے ساتھی اور ارد گرد موجود شہری نہ صرف اس رقص سے محظوظ ہوتے  ہیں بلکہ تالیاں بجاکر دونوں کو خراج تحسین پیش کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔

اسی طرح لندن کی گلی اور ناٹنگ ہل کارنیوال میں بھی پولیس اہلکار کی وڈیو اگست 2017میں یوٹیوب پر اپ لوڈ  ہوئیں۔ ان وڈیوز کو ہزاروں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ ناٹنگ ہل کارنیوال میں پولیس اہلکار یونیفارم میں ملبوس ہے اور خوب رقص کرتا دکھائی دیتاہے ۔ ارد گرد موجود درجنوں لوگ اس کی وڈیو بناتے دکھائی دے رہے ہیں۔

اسی طرح امریکی ریاست فلوریڈا میں بھی ایک خاتون پولیس اہلکار کی بھی مقامی بچوں کے ساتھ رقص کی وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ۔

پاکستان میں مرد پولیس اہلکاروں کی وڈیوزپر کبھی تنازعہ نہیں ہوا اور نہ ہی کبھی معیوب تصور کیا گیا۔ جہاں تک خواتین پولیس اہلکاروں کے رقص کا معاملہ ہے تو یورپ اور امریکہ کے برعکس پاکستان ہی نہیں بھارت میں بھی اس پر شدید تنقید سامنے آئی ہے۔

بھارتی ریاست مغربی بنگال میں پولیس کی ایک تقریب میں ایک خاتون پولیس اہلکار کے شاہ رخ خان کے ساتھ ناچنے پر تنازع اٹھ کھڑا ہونے کی خبر بی بی سی نے اگست 2014میں شائع کی خبر کے مطابق بھارت کے حزبِ اختلاف کے رہنماؤں نے اس معاملے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاتون پولیس اہلکار کو وردی میں ناچنے کی اجازت دینے سے پولیس کی ہتک ہوئی ہے۔

اس تقریب میں شرکت کرنے والی مغربی بنگال کی رہنما ممتا بینر جی کو بھی اس رقص کی اجازت دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔

ان کے حوالے سے بتایا گیا کہ ’آئین کسی کو اس طرح وردی میں ناچنے کی جازت نہیں دیتا۔ یہ شرم کی بات ہے کہ پولیس کی وردی کے تقدس کو پامال کرنے کی اجازت دی گئی۔ خاتون افسر کو اس طرح وردی میں ناچنے کی اجازت دے کر ممتا بینر جی نے بھارت کے آئین کی خلاف ورزی کی ہے۔‘

میڈیا نے سابق سٹی پولیس کمشنر نیروپم سوم کے حوالے سے بھی کہا ہے کہ ’میں اپنے دور میں کسی کو اس طرح ڈانس کرنے کی کبھی اجازت نہیں دیتا۔‘

اسی طرح گزشتہ برس پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع پاکپتن میں ایک پولیس اہلکار کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اس کو ملازمت سے معطل کردیا گیا تھا

ویڈیو میں پولیس وردی میں ملبوس اہلکار ایک انڈین فلمی ڈائیلاگ بول رہا تھا۔

ایک ویڈیو میں محمد ارشد نامی  پولیس اہلکار بھارتی اداکار انیل کپور کی سنہ 2013 میں ریلیز ہونے والی فلم ’شوٹ آؤٹ ایٹ ونڈالا‘ کے ایک ڈائیلاگ پر اداکاری کرتے دکھائی دے رہے ہیں، یہ ڈائیلاگ کچھ یوں ہیں: ’دو وقت کی روٹی کماتا ہوں، پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہوں، اس سے زیادہ میری ضرورت نہیں، اور مجھے خریدنے کی تیری اوقات نہیں۔‘

ترجمان ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد آصف نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایاتھا کہ پولیس وردی میں ملبوس دو ویڈیوز منظرعام پر آئی ہیں۔ ان میں سے ایک ڈائیلاگ والی ویڈیو ایس ایچ او محمد ارشد کی ہے جبکہ دوسری ویڈیو میں دکھائی دینے والا پولیس اہلکار ایک سابقہ ملازم ہے۔

سب انسپکٹر محمد ارشد:فوٹو سوشل میڈیا

ترجمان ڈی پی او کے مطابق پولیس یونیفام میں ڈائیلاگ بولنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ایس ایچ او محمد ارشد کو معطل کرتے ہوئے پولیس ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا شو کاز نوٹس جاری کیا ہے جس کا جواب انھیں سات دن کے اندر جمع کروانا ہوگا۔

محمد ارشد نامی پولیس اہلکار سے متعلق ذرائع نے یہ خبر دی ہے کہ انہیں ابھی تک ایسی سنگین سزا نہیں دی گئی بلکہ وہ پاکپتن پولیس لائن میں موجود ہیں اورلائن حاضر ہیں۔

اس حوالے سے سابق آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر شعیب سڈل نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ جب تک خواتین پولیس اہلکاروں کی برطرفی کے آرڈر سامنے نہ ہوں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ڈاکٹر شعیب سڈل کے مطابق ان کے خیال میں خواتین پولیس اہلکاروں کو شوکاز نوٹس دیا گیاہوگا اور ذاتی شنوائی بھی ہوئی ہوگی۔خواتین پولیس اہلکاروں کی طرف سے تسلی بخش جواب نہ دیے جانے کی صورت میں ہی یہ اقدام کیا گیا ہوگا۔

انہوں نے کہا  برطرفی کے بعد خواتین پولیس اہلکاروں  کے پاس اپیل کا حق موجود ہے وہ ڈی آئی جی کے پاس اپیل کرسکتی ہیں اسکے بعد آئی جی اور سروسز ٹریبیونل میں بھی جاسکتی ہیں۔

صحافی اعزازسید کہتے ہیں کہ محض رقص کرنے پر خواتین پولیس اہلکاروں کا برطرف ہونا بدقسمتی کی بات ہے۔ پنجاب پولیس کے اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے اداروں میں شخصی آزادیوں کی قدر اور شعور نہیں ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ملک میں انتہا پسندی اور دھشتگردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کروانے کے زمہ دار ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ پولیس اور دیگر زمہ دار خود انتہا پسند خیالات کے حامل ہیں اسی لیے ان خواتین اہلکاروں کو برطرف کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے پولیس ، انتظامیہ اور دیگر اداروں میں انتہا پسند رجحانات کے تدارک کے لیے الگ سے نیشنل ایکشن پلان اور اس پر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔

پولیس یونیفارم میں آفیسرز اور اہلکاروں کارقص کرنا اور پھر ان کی وڈیوز کا وائرل ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ دنیا بھر میں اس طرح کے واقعا ت سامنے آئے ہیں۔ تاہم کہیں سے بھی محض رقص کیے جانے پر نوکری سے نکالے جانے کی خبر سامنے نہیں آئی سوال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں شخصی آزادیوں کی قدر کب اور کیونکر ہوگی؟

نوٹ:ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

ٹاپ اسٹوریز