یوم مئی اور پاکستان کے نوجوان

ہرسال یکم مئی پوری دنیا میں مزدوروں کے حقوق کی کامیاب جدوجہد کی یادگار کے طور پر منایا جاتا ہے۔ شکاگو کے شہید مزدوروں کو اس تحریک کا ہراول دستہ قراردیا جاتا ہے جنہوں نے یکم مئی 1886 کو اپنی جانیں دے کرمعاشی و سماجی جکڑ بندیوں کے مضبوط قدیمی جال کو توڑا تھا۔ اس کے بعد ریاستوں میں لیبر قوانین کے اجرا کا مرحلہ مکمل ہوا اوریوں مزدوروں کے حقوق کو بین الاقوامی طورپرایک لڑی میں پرونے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے بعد یہ طے پایا کہ تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے مزدور یونین سازی کا بنیادی حق رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ ریاستوں میں فوجی اداروں سے لے کرتمام سویلین اداروں تک میں یونین سازی کا اختیارتفویض کیا گیا۔

دنیا بھرمیں لیبر قوانین کی تشکیل کا اندازنہایت جمہوری طورپر طے کیا گیا جس میں تینوں فریقین یعنی مالک، مزدور رہنما اور حکومتی نمایندے کی باہمی مشاورت کو کلیدی اہمیت دی گئی۔ جدید دنیا میں یہ تکون کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتی رہی اورمزدوروں کے حقوق کو جہاں آئینی تحفظ فراہم کیا گیا وہاں مزدوریونینز کے نظام کو ایک مربوط شکل دی گئی تاکہ کسی بھی قسم کے سیاسی و معاشی خیالات رکھنے والی حکومتیں مزدوروں کے بنیادی حقوق کو پامال نہ کرسکیں۔

مزدوریونینز کی جدید تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کس طرح مختلف ممالک میں اِنہوں نے مسلسل جدوجہد اورمزدوردوستی کے بنیادی فلسفے کو مدنظر رکھتے ہوئے مزدور طبقات کے مفادات کو نقصان سے بچائے رکھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ تاریخی مزدوردوست تصور ہمارے مخصوص اورغیر متوازن حکومتی ادوارمیں مسلسل پامال ہوا یہاں تک کہ ہمارے ہاں ٹریڈ یونین ایک ایسا ادارہ بن کررہ گیا کہ جس کے پاس کوئی اخلاقی جواز تک باقی نہ رہا۔ اس تمام عمل میں جہاں خودساختہ مزدوررہنماؤں کے ذاتی مفادات نمایاں رہے وہاں سول و فوجی حکومتوں کے مزدور دشمن اقدامات کا بھی بہت زیادہ عمل دخل رہا۔ بنیادی طورپرآج ہماری مزدورتنظیمیں جس حال میں ہیں اورپاکستان کا مزدورطبقہ جس کسمپرسی کا شکار ہے اس کے ذمہ داروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔

آئی ایل او اوردیگر ٹریڈ یونینز کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سماجی تبدیلی کی بنیادی اکائی یعنی محنت کش، مزدور، ہاری اورکسان ملکی آبادی کا 32 فیصد سے زائد ہیں اوربالغ آبادی کے تناسب کو دیکھا جائے تو یہ 70 فیصد سے زائد یعنی چھ کروڑ نفوس پر مشتمل حصہ بنتا ہے۔ یہ وہ متحرک طبقہ ہے جو کسی بھی ریاست کی معاشی سمت کا تعین کرسکتا ہے اوراگراس کے بہترحقوق اور فعال کردار کو تسلیم کرلیا جائے تو کوئی بھی ملک صحت مند معاشی مرتبہ حاصل کرسکتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اس بڑے حصے کو نہ صرف فراموش کردیا بلکہ اِن کو بے یارومددگار بھی چھوڑ دیا ہے۔

اگر اعدادوشمار پر نظردوڑائی جائے تومعلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں لیبر فورس کا 80 فیصد سے زائد حصہ غیر منظم شعبے سے تعلق رکھتا ہے جب کہ منظم ٹریڈ یونین میں اس کی شرح 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ اگرحکومتی سیکٹریعنی ریلوے، واپڈا، بلدیات، آئل وگیس، اسٹیل ملز وغیرہ کے مزدوروں کا شمار نہ کیا جائے تو پرائیویٹ سیکٹر کی ٹریڈ یونین میں منظم مزدور1 فیصد سے بھی کم رہ جاتے ہیں جو کہ جنوبی ایشیاء میں سب سے کم تر سطح ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں مزدور تحریک کو منظم کرنے کے قانونی ذرائع تیزی کے ساتھ اپنی اہمیت کھوتے جارہے ہیں اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں مزدورتو بہت زیادہ ہوں گے لیکن اِنہیں کسی بھی منظم مزدوریونین کا سہارا میسر نہیں ہوگا۔ یہی سب کچھ نجی و سرکاری سرمایہ دارانہ ادارے اورقوتیں چاہتی ہیں کہ کسی بھی طرح ایک آزاد اورمتحرک ٹریڈ یونین کا وجود قائم نہ ہونے پائے۔

پاکستان میں سوائے بھٹو دورحکومت کے، دوسرے فوجی و سویلین ادوارحکومت میں پاکستانی مزدوروں کو ان کی بنیادی شناخت کے قریب نہیں پھٹکنے دیا گیا۔ بھٹو دورحکومت کو بھی مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے ’’عبوری دور‘‘ ہی قرار دیا جاسکتا ہے کیوں کہ مرحوم بھٹو بظاہر مزدورحقوق کے زبردست حامی نظر آتے تھے لیکن اُن کے فوری اقدامات میں دیرپا سنجیدگی کا فقدان نمایاں ہے کیوں کہ بھٹو صاحب کا مطمح نظر مزدوروں کے مسائل کے دائمی حل سے کہیں زیادہ اُس مخصوص دور کے سیاسی بحرانوں سے نکلنا تھا۔ جوں جوں وقت گذرتا رہا مزدوروں کے حوالے سے حکومتی اقدامات کو جیسے گھن لگ گیا اوراِنہیں فراموشی کی سرکاری کھائی میں پھینک دیا گیا۔ پاکستان کی مختلف حکومتوں نے کئی بین الاقوامی لیبرکنونشنزکی توثیق کی ہے لیکن حقیقت بہت زیادہ حوصلہ شکن ہے۔

اگر ہم محض غیرمنظم شعبوں کی حالت زارپر نظرڈالیں تواندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں مزدوروں کےغیر منظم شعبوں کی حالت بہت زیادہ دگرگوں ہے۔ مثال کے طور پر آج پاکستان میں زراعت، بھٹہ خشت، تعمیرات، کان کنی، مواصلاتی شعبوں کے مزدوروں کا کوئی پرسان حال نہیں جب کہ دوسری طرف منظم صعنتی شعبوں کے مزدوروں کی حالت بھی بہت زیادہ اچھی نہیں اوروہاں بھی اکثراوقات منقسم اورغیرمستحکم حالات کا شکار ہے.

قانون کہتا ہے کہ مزدور یونین سازی کرسکتا ہے لیکن حقیقت میں اسے اس حق سے محروم رکھا گیا ہے۔ اسی طرح اگرچہ آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی سے زائد کام غیر قانونی ہے لیکن درحقیقت اسی کو قانون کی حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ صحت، تحفظ، پنشن اورقانون سازی حق ہے لیکن محنت کش نہ صرف اس سے محروم ہے بلکہ اس پہ اگر وہ بات بھی کرے تو اسے فوری طور پر بے روزگار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مزدورطبقہ تمام تر پیدارواری عمل میں اپنی کلیدی اہمیت کے باوجود اپنے سماجی، معاشی اور سیاسی اظہارمیں بڑی حد تک ناکام رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں اورسیاسی تحریکوں میں محنت کشوں کی عدم شراکت رہی ہے۔ البتہ اب پاکستان میں نئے سیاسی رجحانات جنم لے رہے ہیں اور نوجوان طبقہ سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی مکالمہ تک میں شامل ہورہا ہے۔ اس کی وجہ سے حالات کی ایک نئی صورت سامنے آنے لگی ہے۔

بہت ہی چھوٹے پیمانے پر سہی لیکن پاکستان میں ایک نئی صف بندی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔ اگرآج فیکٹریوں میں تنظیم سازی ممنوع ہے تو رہائشی بستیوں میں صف بندی روک دینا ممکن نہیں رہا۔ ملک کی لیبر فورس میں نوجوانوں کا حصہ 60 فیصد سے زائد ہے جب کہ صنعتی مزدوروں میں نوجوانوں کی شرح 72 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یہ نوجوان اپنے مستقبل کے لیے پرجوش بھی ہیں اور سیاسی طور پر زیادہ واضح اورمنظم بھی۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ نوجوان محنت کش، جن میں بڑی تعداد خواتین محنت کشوں کی ہے، منظم ہونے کے لیے شعوری طور پر آمادہ ہورہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں محنت کش طبقے کے لیے کوئی چارہ گر نہیں بن سکا لیکن جب بھی محنت کشوں نے خود سے اپنی قیادت سنبھالی، تھوڑی ہی سہی، کامیابی ان کےحصے میں ضرورآئی۔ سانحہ بلدیہ کراچی ہو، گڈانی شپ بریکنگ کی صنعت سے وابستہ مزدور ہوں یا دیگراداروں میں جدوجہد ہو، وہ اپنی جنگ خود لڑ کر فتح یاب ہوئے ہیں۔ یہی وہ تاریخی مزاحمت ہے جو نئے حوصلوں کو جنم دیتی رہی ہے اور یہی اُمید کی کرن ہے جو پاکستان کے محنت کشوں کو ایک بار پھر اپنے حقوق کے لیے یکجا کرسکتی ہے۔

 

ٹاپ اسٹوریز