محل سے مرقد تک ، مزدور بے نام و نشاں ہی رہا

محل سے مرقد تک ، مزدور بے نام و نشاں ہی رہا | urduhumnews.wpengine.com

تاج محل کا ذکر آئے تو ذہن میں ایک ہی نام ابھرتا ہے، مغل شہنشاہ شہاب الدین شاہ جہاں، جس نے اپنی محبوب زوجہ ارجمند بانو کی آخری آرام گاہ کے طور پر اسے تعمیر کرایا۔

لیکن اس مزدور کو کوئی نہیں جانتا جس کے ہاتھوں کی صناعی نے سنگ مرمر کے بے ترتیب ٹکڑوں کو خوبصورت عمارت کی شکل دی۔

آج تاج محل کو نہ صرف روئے زمین پر محبت کی واحد نشانی کہا جاتا ہے بلکہ  یہ جدید دنیا کےعجائبات میں بھی شامل ہے۔

شاہ جہاں اورارجمند بانو اس عمارت میں دفن ہو کر بھی زندہ ہیں مگر وہ مزدور جس کا شاہکار دھرتی کے سینے پر جلوہ فگن ہے وقت کی گرد تلے دفن ہوکر بے نام ونشاں ہو چکا۔

تاج محل 1648 میں مکمل ہوا لیکن اس وقت “یوم مزدور”منانے کا رواج نہ تھا۔

اس کی تکمیل کے 238 سال بعد شکاگو کے مزدوروں پر فائرنگ ہوئی اور یہی گولیاں”یوم مئی” کی بنیاد ٹھہریں۔

حالانکہ تاج محل جسے عرف عام میں تاج بھی کہا جاتا ہے کی تعمیر کے وقت بھی اوقات کار طے نہ تھے لیکن بادشاہ کے سامنے سر اٹھانے والا کوئی نہ تھا۔

منگل کے روز پاکستان سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں “لیبر ڈے” یا “یوم مزدور”منایا گیا۔ رہنماوں نے ائرکنڈیشنڈ ہالز میں سیمینارز سے خطاب کیا اور مزدوروں کے حقوق کے تحفظ کا عزم ظاہر کیا۔

لیکن کسی کی تقریر سے کچھ نہ بدلا بلکہ عام تعطیل ہونے کے باعث بہت سے مزدورخالی ہاتھ لوٹ گئے۔

سڑکیں ویران رہیں، سواریاں گاڑی اور گاڑیاں سواریوں کو ترستی رہیں۔

بھٹے کی تپش البتہ آج بھی ماند نہ پڑی اور نہ ہی بھٹہ مزدوروں کو کوئی رعایت ملی۔

کیونکہ انہی اینٹوں سے تو تاج محل جیسے محلات بننے ہیں جن کی بنیادوں میں ہنر کے ساتھ ساتھ مزدوروں کا خون بھی شامل ہوگا۔

محل تو بن جائیں گے لیکن مغل بادشاہت کی طرح ان کے معماروں کو مرقد بھی نصیب نہ ہوگا۔

ہم یوم مئی مناتے رہیں گے لیکن مزدور کو اس کا حق کبھی نہیں دیں گے۔

اسی لئے تو ساحر لدھیانوی نے اپنی محبوبہ سے کہا تھا۔

یہ عمارات و مقابر یہ فصیلیں، یہ حصار

مقتل کل حکم شہنشاہوں کی عظمت کے ستوں

یہ چمن زار، یہ جمنا کا کنارہ، یہ محل

یہ منقش درو دیوار، یہ محراب، یہ طاق

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر

ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے!

ٹاپ اسٹوریز