ہم بابو رہے نہ بندر

کہتے ہیں کہ فیشن موسموں کے ساتھ  بدلتے ہیں اور وفاداریاں اصولوں پر لیکن پاکستان کی سیاست میں وفاداریاں فیشن کی طرح بدلتی ہیں۔ دیکھا یہی گیا ہے کہ ہمارے سیاست دان پانچ سات سال جس تھالی میں کھاتے ہیں اسی میں اچانک انہیں کوئی چھید نظر آ جاتا ہے اور وہ یوں اپنی پارٹی تبدیل کر لیتے ہیں جیسے لڑکی ماں باپ کے گھر سے بھاگ کر خفیہ نکاح کرتی ہے۔

پاکستان میں ان دنوں انتخابات کا ہنگامہ برپا ہے اور سیاسی بٹیرے جس طرح اپنے آشیانے بدل رہے ہیں اور بندروں کی طرح قلابازیاں کھا رہے ہیں انہیں دیکھ کر بے اختیار انکل ڈارون کی تھیوری پر ایمان لانے کو جی چاہتا ہے۔

انکل ڈارون جسے دنیا چارلس ڈارون کے نام سے جانتی ہے، نے 1859 میں اپنا مشہور زمانہ نظریہ ارتقا (Theory of evolution ) پیش کیا تھا۔ اس نے قرار دیا تھا کہ انسان درحقیقت بندر تھا لیکن ارتقائی تبدیلیوں کے ذریعے اس نے وہ شکل اختیار کر لی جو آج انسانوں کی ہے۔

چارلس ڈارون 2 فروری 1809 کو برطانیہ میں پیدا ہوا اور 19 اپریل 1882 کو اپنی موت تک انسان کو بندر ثابت کرنے میں لگا رہا لیکن اگر وہ پاکستانی سیاست دانوں سے مل لیتا تو اسے وہ طویل سفر کبھی اختیار نہ کرنا پڑتا جس کا نچوڑ نظریہ ارتقا کی صورت سامنے آیا۔ وہ محض دیکھ کر ہی ایمان لے آتا کہ انسان بندر تھا نہیں بلکہ اب بھی ہے۔

اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو انکل ڈارون کی یہ کوشش بے سود سی لگتی ہے کیونکہ اس کے ہم وطن اور ہمارے آقا اس کی تھیوری سے دو سال پہلے ہی ہمیں بندر بنا چکے تھے۔

انگریز غاصب تھے یا حریص لیکن تھے بلا کے منصوبہ ساز۔ وہ 100 سال کی سوچ رکھتے اور 50 سال کی منصوبہ بندی کرتے۔ 1857 میں جب وہ بلاشرکت غیرے ہندوستان پر قابض ہوئے تو انہوں نے یہاں کے باسیوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنا شروع کیا۔

انہوں نے ہندوستان کو تین حصوں میں تقسیم کیا۔

نیپال سمیت پوٹھوہار کے پہاڑی علاقوں میں بسنے والوں کی نفسیات پڑھنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان کی فطرت میں جنگ و جدل کے سوا کچھ نہیں چنانچہ انہوں نے فوج میں ان علاقوں کے رہنے والوں کو بھرتی کیا ۔ نیپال کی گورکھا رجمنٹ اور فوج میں پوٹھوہار کے لوگوں کی اکثریت آج بھی انگریزوں کے اسی فیصلے کی مرہون منت ہے۔

پنجاب کے زیریں علاقوں میں رہنے والوں میں انگریزوں کو زمین سے محبت نظر آئی چنانچہ انہوں نے منٹگمری، لائلپور اور سرگودھا کے جنگلات کو کٹوا کر دہرا فائدہ حاصل کیا۔ ایک طرف انہوں نے دلا بھٹی اور احمد خان کھرل جیسے آزادی کے متوالوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کیا تو دوسری جانب کثیر تعداد میں لوگوں کو صاف کی گئی زمین پر آباد کر کے انہیں کھیتی باڑی کا راستہ دکھایا۔

انگریزوں نے یہاں نہ صرف دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام قائم کیا بلکہ آبادکاری کو بھی نیا روپ دیا۔ پنجاب کے ہزاروں چک اس بات کے گواہ ہیں جنہیں بہنے والی نہروں اور ان کی برانچوں کی مناسبت سے ناموں کے بجائے نمبر الاٹ کیے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی برصغیر پاک وہند میں پنجاب کو غلے کا گھر کہا جاتا ہے۔

وہ علاقے جو آج ہندوستان کی ریاستوں اتر پردیش اور بہار میں شامل ہیں، کے رہنے والے پڑھنے لکھنے کے شوقین تھے چنانچہ انگریزوں نے دفتری کاموں کے لئے یہاں کے رہنے والوں کا انتخاب کیا۔ انہوں نے کثیر تعداد میں لوگوں کو سرکاری ملازمتیں دیں لیکن یہ اقدام خود انگریزوں کے لئے مذاق بن گیا کیونکہ کوئی چوکیدار پائجامہ پہن کر دفتر پہنچ جاتا تو کوئی کلیوں والا کرتہ۔

انگریزوں کو اپنی پینٹ شرٹ اور نیکر کے مقابلے میں یہ دھوتیوں اور پائجاموں والے لوگ عجیب لگے تو انہوں نے حکم جاری کیا کہ دفتروں میں آنے والے تمام لوگ ان جیسا لباس پہنیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور ہندوستانی سرکاری ملازموں نے انگریزوں کا پہناوا اپنا لیا لیکن خود کو ان کے انداز میں نہ ڈھال سکے۔

انگریزوں نے ان کا مذاق اڑانا شروع کر دیا اور انہیں بیبون (Baboon)  کہنے لگے ۔ بیبون وہ بندر ہے جو نقالی میں انسان کے قریب ترین سمجھا جاتا ہے۔ کچھ عرصے بعد یہی بیبون سکڑ کر بابو بن گیا۔

انگریزوں نے ان بابوؤں کو صرف دفتری آداب و رموز ہی نہیں سکھائے بلکہ یہ بات بھی ان کی گھٹی میں ڈالی کہ سرکار کا ملازم عوام کا خادم نہیں آقا ہوتا ہے۔ 90 سال کی مسلسل تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب انگریزوں نے بر صغیر کو خیرباد کہا تو یہ بابو، بیورو کریسی میں تبدیل ہو چکے تھے۔

یہ روش تقسیم ہندوستان کے بعد بھی جاری رہی اور رفتہ رفتہ بیورو کریسی کی گردن کا سریا اتنا مضبوط ہو گیا کہ اسے توڑنا ، موڑنا یا نکالنا ممکن ہی نہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ عام و خاص آج بھی انہی کے محتاج ہیں۔

بابوؤں کی تقلید میں سیاستدانوں نے بھی یہی رویہ اپنایا۔ سیاستدان اس وقت تک عوام کے خادم رہتے جب تک انہیں اقتدار نہ ملتا۔ ووٹ لینے تک تو وہ لوگوں کے در کے فقیر رہتے لیکن جونہی وہ مسند اقتدار پر بیٹھتے ان کے تمام وعدے اور دعوے خس و خاشاک کی طرح بہ جاتے اور پھر آئندہ انتخابات تک ووٹر ان کی شکل کو ترستے رہتے۔

انگریزوں کے جانے کے 70 سال بعد بھی سیاستدان اسی راستے پر چل رہے ہیں لیکن تمام تر خود غرضیوں کے باوجود سیاستدانوں نے اصول پسندی، وضع داری اور شرافت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔

ماضی میں قائداعظم محمد علی جناح کے علاوہ لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی، نواب بہادر یار جنگ، افتخار ممدوٹ، ذوالفقار علی بھٹو، مفتی محمود، نوابزادہ نصراللہ خان، خان عبدالولی خان، مولانا ابوالاعلیٰ مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد اور پروفیسرغفوراحمد جیسے درجنوں بلکہ سینکڑوں نام ایسے ملیں گے جو اپنے بدترین سیاسی مخالفین کے ساتھ نہ صرف رواداری سے پیش آتے تھے بلکہ ان کا نام بھی عزت و احترام سے لیتے تھے۔

لیکن آج کی سیاست سے شرافت، رواداری اور وضع داری جیسے اصول یوں ناپید ہو چکے ہیں کہ جیسے  کبھی ان کا وجود ہی نہ تھا۔ آج کا بڑا سیاستدان وہ ہے جو اپنے سیاسی مخالف کی زیادہ سے زیادہ تذلیل کرے، الزام تراشی میں حد سے گزر جائے اور آپ جناب کے بجائے اوئے توئے پر اتر آئے۔

نظریے کے بجائے مفاد پرستی کی سیاست شروع ہوئی تو وفاداریاں تبدیل کرنے کے رجحان کو بھی فروغ ملا۔ کبھی سیاست کو عبادت کا درجہ دیا جاتا تھا لیکن اب سیاست کو اصطبل اور سیاسی رہنماؤں کو گدھے گھوڑوں تک کے خطابات سے نوازا جاتا ہے کیونکہ اب وہ اصول پر نہیں بلکہ پیسے اور پرمٹ پر بکتے ہیں۔

ہم انسانیت کو تو پہلے ہی خیرباد کہہ چکے تھے، نئے رجحان کے ساتھ ہماری سیاسی شائستگی بھی کوچ کر گئی۔ ہم نے لباس کی طرح اصول بدلنے شروع کر دیے اور گرگٹ کی طرح وفاداریاں۔

سو آج اگر سیاستدان صبح دوپہر شام اپنی جماعتیں تبدیل کر رہے ہیں تو واویلا کیسا اور حیرت کیسی کیونکہ اب تو ہم ، بابو رہے نہ بندر۔۔۔!!!

ٹاپ اسٹوریز