کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ

حکومت اور اپوزیشن ایک طرف نگراں وزیراعظم کا چناؤ کرنے میں بظاہر یا حکمت عملی کے تحت ناکام ہیں تو دوسری جانب نواز شریف کی میڈیا  ٹاک  نے سیاسی ماحول گرما رکھا ہے لیکن اب ایک تیسرا محاذ بھی گرم ہورہا ہے یا کیا جارہا ہے اور وہ کراچی کا محاذ ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کے حصے بخرے ہونے کے بعد اب کراچی پر قبضے کی جنگ چھڑ چکی ہے۔ ایک طرف ایم کیو ایم کے مختلف دھڑے ہیں ، دوسری طرف پی ایس پی ہے، تیسرا پلیئر پیپلزپارٹی کا جیالا ہے تو چوتھا تحریک انصاف کا کھلاڑی ہے۔

ایم کیوایم کو اپنی بقا ایک ہی نعرے میں نظر آئی اور وہ  تھا مہاجر قومیت کا نعرہ۔ اب اس نعرے کی قدرتی مخالفت تو پیپلزپارٹی کی طرف سے ہی ہونی تھی جو ہو رہی ہے لیکن تحریک انصاف کی جانب سے بہت زیادہ مخالفت نظر نہیں آئی۔ سندھ اسمبلی میں خواجہ اظہار الحسن نے جوش خطابت کے جوہر دکھائے اور ساتھ ہی انتخابی سیاست یا انتخابی مہم کا آغاز کرتے ہوئے مہاجر صوبے کی بات بھی کر دی۔

ایم کیوایم کی پالیسی رہی ہے کہ چاہے مہاجرقومی موومنٹ کا پلیٹ فارم ہو یا متحدہ قومی موومنٹ کا، انتخابی مہم میں مہاجر قومیت کا نعرہ ضرور لگتا رہا ہے۔ اسے انتخابی مجبوری کہیں یا کچھ اورلیکن یہ نعرہ لازمی سامنے آتا ہے۔ اسی طرح  پیپلزپارٹی کے لئے ایسے ہر نعرے کی مخالفت بھی لازمی ٹھہرتی ہے۔

سندھ اسمبلی سے ہی متحدہ قومی موومنٹ کو سخت جواب ملا اور وزیراعلیِ مراد علی شاہ نے تو سندھ کی تقسیم کا سوچنے والوں پر لعنت ملامت بھی شروع کردی۔  ان کا یہ جملہ یقیناً قابل اعتراض ٹھہرے گا۔ سندھ اسمبلی کی بازگشت قومی اسمبلی میں بھی سنی گئی جہاں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے فاروق ستار کی جارحانہ بیٹنگ کا بھرپور جواب دیا۔ ماحول میں شدید گرما گرمی دیکھی گئی۔

سخت سے سخت بات کا جواب مسکرا کر دینے والے اپوزیشن لیڈر اتنی گھن گرج کے ساتھ بولے تو سیاسی نگاہ رکھنے والے بھانپ گئے کہ الیکشن سیزن آن ہو گیا ہے۔ عمومی طور پرایم  کیو ایم کی حمایت کرنے والی جماعت کا رویہ کیوں بدلا ؟ سیاسی ایوانوں میں کئی مرتبہ پہلو بہ پہلو بیٹھنے والوں میں اختلافات کی شدت میں اس قدر حدت۔ لگتا ہے پیپلزپارٹی کراچی پر سیاسی قبضے کی جنگ تو شاید نہ جیت سکے لیکن اس میں کسی حصے دار، یعنی تحریک انصاف، کا اضافہ نہیں چاہے گی۔ عوام کو ایک بار پھر مہاجر اور سندھی قوم کی لڑائی میں الجھا کر الیکشن میں کامیابی سمیٹنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایک طرف انتخابات میں کامیابی کا حصول ہدف ہے تو دوسری طرف ایم کیو ایم کی تقسیم سے پیدا ہونے والا خلا پر کرنے کے لیے  تحریک انصاف کی شکل میں ایک اور حصے دار کا راستہ روکنا مقصود ہے۔

اسے کہتے ہیں ۔۔۔ کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ ۔۔۔

ٹاپ اسٹوریز