پاکستان تحریک انصاف سیاسی منجھدار میں

سیاسی جماعت کی مقبولیت سے جہاں رہنماوں کو فائدہ ہوتا ہے وہیں مشکلات بھی بڑھ جاتی ہیں ۔۔۔ پارٹی فنڈنگ کیس ہو یا تشدد کیس، نااہلی کے معاملات ہوں یا جلسوں میں بدنظمی، پی ٹی آئی کی پریشانیاں کم نہیں ہوتی اب ایک اور معاملہ آن پڑا ہے اور وہ ہے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم۔

ہمیشہ سے خبروں میں رہنے والے کپتان عمران خان جہاں پی ٹی آئی کی مقبولیت سے خوش ہیں وہیں ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر یقینا راتوں کی نیند اور دن کا چین کھو چکے ہوں گے، کسی کو ٹکٹ نہ دیا تو پارٹی چھوڑ دے گا یا کسی کو ٹکٹ نہ دیا تو وہ دوسری پارٹی کا پرچم اٹھا لے گا،  یہ ہے وہ مشکل جس سے پی ٹی آئی اس وقت گزر رہی ہے۔
ایک طرف ساٹھ فیصد انتخابی امیدوار میدان میں اتارنے والی پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم میں شفافیت کو اپنانے کی دعویدار ہے تو دوسری طرف اسی پارٹی کے کارکن تحریک انصاف میں ناانصافی کی صدا بلند کررہے ہیں، پشاور ہو یا بنوں، مردان ہو یا کراچی، کئی اہم رہنما ٹکٹ حاصل کرنے میں ناکام نظر آئے ۔۔۔ تو کہیں موروثی سیاست کی واضح جھلکیاں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں ۔۔۔ کوئی خاندان تو ایک ٹکٹ بھی حاصل نہ کرسکا تو کسی سیاسی خانوادے کو دو دوٹکٹ مل گئے، بنی گالہ کے باہر احتجاج کرتے کھلاڑی انصاف کا مطالبہ کررہے ہیں۔
شہریار آفریدی ، شوکت یوسف زئی، علی محمد خان جیسے رہنما جو پی ٹی آئی کی آواز مانے جاتے رہے ہیں اور کپتان کے ساتھ یک جاں نظر آئے، وہ بھی ابتدائی راؤنڈ میں الیکشن سے آؤٹ نظر آئے، احتجاج  نے رنگ دکھایا تو پارٹی کو ہوش آیا۔
پی ٹی آئی میں اچانک وارد ہونے والے ٹکٹ لینے میں کامیاب تو قربانیاں دینے والے کھلاڑی سراپا احتجاج ۔۔۔ کپتان کی نصیحتیں اور ٹکٹ نہ ملنے پر مایوس نہ ہونے کے مشورے بھی جاری ہیں ۔۔ لیکن کھلاڑی ماننے کو تیار نظر نہیں آتے۔
پی ٹی آئی نے پارٹی کی تقسیم کے معاملے پر کمیشن بھی بنا دیا کئی سینیئر رہنما بھی اس بات کا اعتراف کرتے نظر آئے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں تھوڑی بہت غلطیاں ہوئی ہیں لیکن ساتھ ہی ان غلطیوں کا دفاع بھی کر گئے۔

کس کو ٹکٹ ملے گا کس کو نہیں ؟ کون ساتھ رہے گا اور کون ساتھ چھوڑ جائے گا ؟ الیکشن میں ہو گا کیا؟ کیا ٹکٹ نہ ملنے سے مایوس کھلاڑی الیکشن مہم میں اپنا کردار ادا کرسکیں گے؟ ؟ پی ٹی آئی کی کشتی سیاسی منجھدار میں ہے۔

ٹاپ اسٹوریز