آزاد کشمیر ڈائری

آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی میں آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین ایکٹ 1974ء میں  تاریخی 13 ویں  ترمیم کے بعد کشمیر کونسل کے تمام اختیارات آزاد کشمیر حکومت ، قانون ساز اسمبلی اور وزیراعظم پاکستان کو منتقل کر دیے گئے ہیں اور کونسل کی حیثیت ایک مشاورتی ادارے کی سی رہ  گئی ہے۔ ماضی میں آزاد جموں و کشمیر ایکٹ 1970 کو تبدیل کر کے اس کی جگہ آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین ایکٹ 1974 نافذ کیا گیا تھا، بعد ازاں 1975 اور  1976 میں اس میں مزید ترامیم کر کے بہت سی غیر منصفانہ تبدیلیاں کی گئیں جس نے ریاست میں رائج عبوری آئین ایکٹ کا پارلیمانی ڈھانچہ تبدیل کر کے عوام کی منتخب  کردہ  آزاد حکومت کے اختیارات کم کر دیے تھے۔

پاکستان میں آئینی ترامیم کے بعد آزاد کشمیر کو بھی پاکستان کے دیگر صوبوں کی طرح اختیارات دینے کا عوامی مطالبہ کیا گیا جس کے بعد موجودہ حکومت آزادکشمیر نے عبوری آئین ایکٹ 1974 کی سیکشن 31  اور 33  میں بڑی تبدیلیاں تجویز کیں جنہیں آزاد جموں و کشمیر عبوری آئین (تیرہویں ترمیم) ایکٹ 2018 کے نام سے وفاقی کابینہ کے الوداعی اجلاس میں منظور کیا گیا۔

بعدازاں اسے آزاد جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی اور کشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس میں کثرت رائے سے منظور کیا گیا، مشترکہ اجلاس میں قانون ساز اسمبلی کے 49 ممبران، کشمیر کونسل کے چھ ممبران اوروفاقی وزیر امور کشمیر ایک ووٹ  کاسٹ کرتے ہیں۔ یکم جون کو مسلم لیگ ن کی حکومت نے 56 میں سے 35 ممبران کی اکثریت سے یہ تاریخی قانون سازی کی۔ اپوزیشن ممبران اسمبلی کی جانب سے  سیکشن 31 پر اعتراضات کیے گئے اور اجلاس سے واک آوٹ بھی کیا گیا۔

اس تاریخی قانون سازی کے ذریعے بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں، آرٹیکل چھ میں پہلے صدر ریاست پر عدم اعتماد کی صورت میں مشترکہ اجلاس بلایا جاتا تھا مگر اب قانون ساز اسمبلی کی ایک تہائی اکثریت یعنی 17 ممبران اسمبلی عدم اعتماد کی تحریک پیش کر سکتے ہیں۔ آرٹیکل 14 کی شق ایک کے تحت قانون ساز اسمبلی میں وزرا کی تعداد کل ممبران اسمبلی کا 30 فیصد طے کی گئی ہے۔ اگلی حکومت اس قانون کے تحت کابینہ میں 16 سے زائد وزرا نہیں رکھ سکے گی۔ آرٹیکل 14-A کے تحت اب وزیراعظم آزادکشمیر پانچ پارلیمانی سیکرٹریز اور دو معاون خصوصی یا ایڈوائزرز بھی تعینات کر سکیں گے۔

آرٹیکل 17 کی شق تین کے مطابق وزیراعظم آزادکشمیر کی عدم موجودگی کی صورت میں سینئر وزیر قائم مقام وزیراعظم ہوتا تھا جس میں ترمیم کرکے اب قائم مقام وزیراعظم کا عہدہ ختم کر دیا گیا ہے، اسی طرح آرٹیکل 18 کی شق ایک میں ترمیم کے بعد اب وزیراعظم آزاد کشمیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کل ممبران کا 25 فیصد یعنی 13 ممبران اسمبلی کر سکیں گے۔ اس سے پہلے ایک ممبر اسمبلی بھی یہ تحریک پیش کرسکتا تھا۔

نئی قانون سازی میں کئی آرٹیکلز کو حذف کرنے کے علاوہ بہت سی جگہوں پر جوائنٹ سیشن اور کشمیر کونسل کے الفاظ  کو حکومت آزاد کشمیر اور قانون ساز اسمبلی سے تبدیل کردیا گیا ہے۔ آرٹیکل 19 میں نئی شقیں شامل کی گئی ہیں جس کے مطابق حکومت پاکستان کسی وزارت، ڈویژن یا  ادارے کے ذریعے ریاست کے اندر قانون کے تحت اقدامات کر سکے گی جبکہ دوسری شق میں آزاد کشمیر حکومت کو 11 مئی 1971 کے وفاقی کیبینٹ ڈویژن کے مراسلے کے تحت رکھا گیا ہے۔

عبوری آئین ایکٹ 1974 کے آرٹیکل 21 میں کشمیر کونسل کے اختیارات کا تعین واضح تھا جس میں ترمیم کے بعد 14 میں سے سات شقیں نکال دی گئی ہیں اور کونسل کا اختیار ایک ایڈوائزری باڈی کے طور پر کر دیا گیا ہے۔

آرٹیکل 22 میں ترمیم کر کے اسمبلی کی 49 نشستوں کو بڑھا کر 53 کر دیا گیا ہے جن میں سے 45 براہ راست انتخاب کے ذریعے اور آٹھ مخصوص نشستیں شامل ہیں۔ آرٹیکل 24 میں ممبران اسمبلی کی قابلیت کے ضمن میں تعلیمی قابلیت کا کوئی ذکر نہیں ہے، اس آرٹیکل میں ترمیم کی اشد ضرورت تھی جس پر کوئی غور نہیں کیا گیا۔

اسی طرح آرٹیکل 27 میں بھی ترامیم کی گئی ہیں جس کے مطابق پہلے تین ماہ میں ایک دفعہ اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا ضروری تھا جو اب سال میں  60 دن ہونا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اسی طرح وہ آرٹیکلز ختم کر دیے گئے ہیں جن کے تحت مشترکہ اجلاس بلایا جاتا تھا۔ اب کسی بھی قانون سازی کے لیے اسمبلی کی دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔

آرٹیکل 37 کو بھی ختم کر دیا گیا ہے جس کے تحت کشمیر کونسل اپنے پاس ریونیو جمع کیا کرتی تھی، سپریم کورٹ آف آزاد کشمیر اب آرٹیکل 42-A کے تحت رولز بنانے کے لیے کونسل کے بجائے حکومت آزادکشمیر سے مشاورت کرے گی۔

آرٹیکل 43 میں نئی شقیں متعارف کرائی گئی ہیں جن کے تحت صدر آزاد کشمیر وزیراعظم آزادکشمیر کی مشاورت سے شریعت بینچ میں ایک عالم جج مقرر کر سکیں گے۔ آرٹیکل 50 میں الیکشن کمشنر کی جگہ اب الیکشن کمیشن ہو گا جو مجموعی طور پر تین اراکین پر مشتمل ہوگا جن میں ایک الیکشن کمشنر اور دو مزید ممبرز شامل ہونگے۔ وزیراعظم آزاد کشمیر اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کے بعد ان کے نام صدر ریاست کو بھیجیں گے جو اس کی رسمی منظوری دیں گے۔

آرٹیکل 51-A متعارف کرایا گیا ہے جس کے بعد کشمیر کونسل کے تمام فنڈز اور اثاثہ جات حکومت آزاد کشمیر کو منتقل ہو گئے ہیں، اسی طرح ریاست کے اندر پائے جانے والے قدرتی وسائل پر آرٹیکل 52-C کے تحت حکومت پاکستان کو اختیارات دیے گئے ہیں۔

اس تاریخی قانون سازی کے بعد اب آزاد کشمیر کو De-facto صوبہ بھی کہا جاسکتا ہے جس میں کچھ اختیارات UNCIP میں نہیں آتے، اس میں 1971 کے جس نوٹیفیکیشن کا ذکر کیا گیا ہے اس میں آزاد کشمیر کو صوبائی شکل تو دی جا چکی تھی بس اسے صوبہ نہیں کہا جا سکتا۔ اب چین کو سی پیک کے لیے پاکستان کے مکمل زیرانتظام کشمیر چاہیے تھا جو ہوچکا ہے اور امید ہے کہ اب آزادکشمیر میں سی پیک کے تحت لگنے والے پراجیکٹس بھی جلد شروع ہو جائیں گے۔

ٹاپ اسٹوریز