انسداد منشیات کا عالمی دن اور ہماری ذمہ داریاں

آسودگی کی تلاش‘ بوریت سے نجات  اور فیشن زدہ نظر آنے کی چاہ میں سگریٹ کی جانب بڑھایا جانے والا قدم اتنی آسانی سے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکتا۔

سگریٹ نوشی کو منشیات کی جانب پہلا قدم قرار دیا جاتا ہے کیونکہ معاملہ محض اچھائی اور برائی کے درمیان باریک سی لکیر کا ہی تو ہے اور جب وہ تفریق مٹ جاتی ہے تو پھر کوئی برائی‘ برائی نہیں لگتی۔

یہ علت معاشرے میں عمر کی تفریق کے بغیر کچھ اس طرح سے عام  ہو چلی ہے کہ اسے ایک  بین الاقوامی مسئلہ کہا جا رہا ہے‘ ایک ایسا مسئلہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ سنگین ہوتا چلا جا رہا ہے۔

انسداد منشیات سے شعور و آگاہی کے مقصد کے تحت دنیا بھر میں  ہر سال  26 جون کو منشیات کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔

منشیات کا زہر ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، کتنے ہی خاندان ایسے ہیں جو نشے میں مبتلا اپنے بچوں کے مستقبل سے نااُمید ہو چکے ہیں۔

ہمارے نوجوان اکثر و بیشتر معاشرتی ردعمل اور نامناسب رہنمائی کی وجہ سے نشے جیسی لعنت کو اپنا لیتے ہیں۔ آج ہماری نوجوان نسل منشیات، شراب، جوے اور دیگر علتوں میں مبتلا ہو کر نا صر ف اپنی زندگی تباہ کر رہی ہے بلکہ اپنے ساتھ اپنے خاندان والوں کے لیے  بھی اذیت اور ذلت و رسوائی کا سبب بن رہی ہے۔ ملک و قوم کی ترقی اور مستقبل کے ضامن یہ نوجوان جرائم پیشہ ہوتے جا رہے ہیں  کیونکہ نشہ جسم کے ساتھ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو بھی سلب کر کے رکھ دیتا ہے۔

ایسے لوگوں کے پیش نظر صرف نشے کا سحر ہوتا ہے جس کی خاطر وہ ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنا علاج بھی  نہیں کرانا چاہتے کیونکہ ان کے نزدیک یہ وہ  بیماری ہے جو انہیں دنیا کے دکھوں سے دور رکھ  کر”جنت“ کی سیر کراتی ہے۔ نشے کی تباہ کاریوں کی وجوہات میں خراب صحبت، گھریلو ناچاقی، ازدواجی مسائل، ذہنی دباؤ، بے جا خوف، دین سے دوری، اہل خانہ کو اپنا دشمن سمجھنا، بے وقت کا سونا اور جاگنا شامل ہیں۔

اس وقت دنیا بھر میں 15 سے 64 سال کی عمر کے 35 کروڑ لوگ کسی نہ کسی نشے میں مبتلا ہیں۔ دنیا کی تقریباً سات ارب آبادی میں سے ساڑھے چار ارب افراد کی عمریں 15 سے 64 سال کے درمیان ہیں جن میں نشے کے عادی افراد کی شرح سات فیصد ہے۔

پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد نشے میں مبتلا ہیں۔ صوبائی شرح کے حساب سے پنجاب کے 55 فیصد اور دیگر صوبوں کے 45 فیصد افراد نشے کے عادی ہیں۔ صرف لاہور میں ہی ایک لاکھ لوگ نشے میں مبتلا نظر آتے ہیں جبکہ پاکستان میں ہرسال نشہ کرنے والوں کی تعداد میں پانچ لاکھ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ گو پاکستان میں سرکاری سطح پر اے این ایف‘ کسٹم اور ایکسائز سمیت 24 ایجنسیاں منشیات کے خلاف فعال ہیں۔ ہمارے ہاں پکڑی جانے والی منشیات میں سے 60 فیصد اینٹی نارکوٹکس فورس پکڑتی ہے جبکہ 60 فیصد باقی 23 ادارے پکڑتے ہیں لیکن ان کی تمام تر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود  یہ زہر تیزی سے معاشرے کی رگوں میں اُترتا جا رہا ہے۔

دنیا بھر میں چرس، افیون، ہیروئن، بھنگ اور حشیش سمیت منشیات کی 21  سے زائد اقسام ہیں۔ دنیا میں 62 فیصد لوگ چرس‘ بھنگ اور حشیش کے عادی ہیں جبکہ باقی 20  فیصد ہیروئن، دس فیصد افیون، 20 فیصد لوگ کوکین‘ کیپسول کرسٹل اور گولیاں استعمال کرتے ہیں۔

سڑکو ں اور پتھاروں پر بکھرے ہوئے منشیات کے عاد ی افراد کے حلیے اور ٹھکانوں سے تو اکثر لوگ باخبر اور واقف ہیں اور اُن  پر نفرین بھی بھیجتے ہیں لیکن کیا کیا جائے شہر کے پوش علاقوں اور اعلیٰ درس گاہوں میں زیرتعلیم ان نوجوانوں کا جو انتہائی تیزی سے نشے کو فیشن کے نام  پراپنا رہے ہیں۔ صد حیف کہ جب تک ان بچوں کے والدین پر یہ کربناک حقیقت آشکار ہوتی ہے تب تک اُن کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مطابق ان دنوں منشیات کی فروخت روایتی نہیں بلکہ انتہائی جدید انداز میں سوشل میڈیا کے ذریعے کی جارہی ہے۔ منشیات فروش واٹس ایپ اور فیس بک سمیت سوشل میڈیا کی دیگر ایپس استعمال کر رہے ہیں۔ واٹس ایپ پر ایک میسیج سو لوگوں تک بھی گیا تو ان میں دس سے پندرہ نوجوان ان کے شکنجے میں پھنس ہی جاتے ہیں۔

منشیات کا عادی بنانے کے لیے گاہکوں کو ان کے گھر تک منشیات پہنچائی جا رہی ہے۔ حال ہی میں  کچھ ایسے گروپ بھی پکڑے گئے ہیں جو ٹیکسی سروس استعمال کیا کر تے تھے۔ ان میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں ہی شامل تھے جو گھروں میں جا کر ڈرگز پہنچاتے تھے۔ ایسے گروپ شہر کے پوش علاقوں میں سرگرم ہیں کیونکہ وہاں کے نوجوانوں کے لیے چار پانچ ہزار روپے کا انتظام کوئی مشکل بات نہیں۔ یہ بھی ایک تکلیف دہ امر ہے کہ منشیات فروش اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے نوجوان نسل کو ہی اپنا آلہ کار بنا رہے ہیں اور ہماری نسلیں ان کے ناپاک ارادوں کی بھینٹ چڑھ  رہی ہیں۔

شہر میں منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے مراکز میں ان دنوں ایک نئے نشے کے عادی نوجوانوں کو لایا جا رہا ہے جسے کرسٹل میتھ کہا جاتا ہے۔ نسبتاً مہنگا ہونے کی وجہ سے نجی تعلیمی اداروں اور امیر گھرانوں کے نوجوان کرسٹل میتھ کا شکار بن رہے ہیں۔ کرسٹل میتھ نامی نشے پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ کرسٹل یا آئس نامی یہ نشہ’’میتھ ایمفٹامین“ نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے۔ یہ چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر کرسٹل کی قسم کی سفید شے ہے جسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے۔اس مقصد کیلئے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے جبکہ اسے جسم میں اُتارنے کا ایک ذریعہ انجکشن بھی ہے۔ کراچی میں پولیس اور رینجرز بعض ایسی لیبارٹریز پر چھاپے مار چکی ہیں جہاں کرسٹل تیار کی جاتی تھی جبکہ اس کی ایک بڑی مقدار افغانستان سے اسمگل ہو کرآتی ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان منشیات کی ایک عالمی گزرگاہ پر واقع ہے‘اس لیے یہاں انہیں فروخت کرنے والی مافیا اور استعمال کرنے والے بھی موجود ہیں۔

علاقے میں کہاں کہاں منشیات فروخت ہو رہی ہے‘ علاقہ پولیس اور دیگر ادارے اس سے باخبر ہوتے ہیں لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے رہتے ہیں اسی وجہ سے ایماندار اور فرض شناس پولیس اہلکاروں کے لیے جدید منشیات فروشوں تک رسائی کسی چیلنج سے کم نہیں۔

ماہر منشیات ڈاکٹر ہیرا لال لوہانو منشیات کے استعمال کی تین بنیادی وجوہات بیان کرتے ہیں جن میں ذہنی دباؤ سرفہرست ہے۔ یہ دباؤ امتحان‘ محبت میں ناکامی‘ تاخیر سے شادی‘ نظر انداز کئے جانے‘ کسی کے ساتھ  مقابلے اور بے روزگاری سمیت کسی بھی چیز کا ہو سکتا ہے۔

دوسری وجہ شخصیت کا عدم توازن جبکہ تیسری وجہ دوستوں کی صحبت ہے یعنی چار دوست اگر منشیات استعمال کرتے ہیں تو پانچواں دوست دباؤ میں آکر اس کا استعمال شروع کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر لوہانو کے مطابق بعض امیر گھرانوں کے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کی ایک وجہ جنسی قوت میں اضافے کی خواہش بھی ہے۔

پوش علاقوں میں بطور خاص نشے کے عادی نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ ان مقامات پر منعقدہ پارٹیاں ہیں جہاں سے نوجوان نسل آزادی کے نام پر بے حیائی اور فیشن کے نام  پر نشے کی عادت اختیار کرتے ہیں۔

انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوولیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2005 سے 2017 کے دوران منشیات کے استعمال کے نتیجے میں معذوری کا شکار ہونے والے افراد میں 98 فیصد اضافہ ہوا ہے اور منشیات کے عادی نوجوانوں میں ذہنی معذوری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر لوہانو کا کہنا ہے کہ منشیات دماغ کے خلیوں میں عدم توازن پیدا کر دیتی ہے جس کے نتیجے میں دماغ عام انسانوں کی طرح کام کرنے کے قابل ہی نہیں رہتا اور نتیجتاً انسان ذہنی‘ جسمانی اور سماجی طور پر معذور ہو جاتا ہے۔

ایک سروے کے مطابق نشے کی عادت میں مبتلا ہونے کی ایک اہم وجہ والدین کی بچوں سے عدم توجہی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے سگریٹ نو شی کرتے ہیں اور ان کے و الدین اس امر سے بے خبر نظر آتے ہیں‘ یہ بچے سگریٹ کے دھوئیں کے ہمراہ آگے بڑھتے ہوئے ایک ایسی راہ کے مسافر بن جاتے ہیں جو انہیں تباہی و بربادی کی منزل تک لے جاتی ہے۔ آ ج وہ دور نہیں جب لوگ راہ چلتے ہوئے بھی کسی بچے کو تنبیہ کردیں تو وہ اس وقت کے لیے ہی سہی ہاتھ سے سگریٹ پھینک دیتا تھا‘ آج اگر ہم کسی اپنے کو بھی کچھ کہتے ہیں تو وہ اپنی ایک غلط حرکت کے سو عذر پیش کردیتا ہے۔

منشیات فر وشی پر پابندی اور ا س کے خلاف کیے جانے والے اقدامات اپنی جگہ لیکن والدین کا اپنے بچو ں پر نظر رکھنے کا عمل انتہائی ضروری ہے۔ بچو ں کے ساتھ ان کے دو ستوں پر نظر رکھیں اور انہیں اچھی صحبت کے فو ائد بتائیں۔ جہاں اُن کے قدمو ں میں ہلکی سی بھی لرزش نظر آئے اُن پر قابو پانے کی کوشش کریں بصورت دیگر زندگی کا یہ اہم ترین سرمایہ ضائع ہو سکتا ہے۔

ٹاپ اسٹوریز