سیاسی جماعتوں کی مشکلات

پاکستان میں انتخابی بگل بج چکا، سیاسی جماعتوں کے پردیسی پرندوں نے اڑانیں بھی بھر لیں، کون کہاں گیا سب سامنے آ گیا، اب مرحلہ آیا کہ کس کو پارٹی ٹکٹ ملے گا، یہاں پھر پڑ گیا ہے میچ، مسلم لیگ نواز ہو یا پیپلزپارٹی یا پاکستان تحریک انصاف، تمام  بڑی جماعتوں میں ٹکٹوں کی جنگ نے کئی وفاداروں کی پول کھول دی۔
مقبول ترین سیاسی جماعت ہونے کی دعوے دار تحریک انصاف میں سب سے پہلے اختلافات کی ہوا چلی، پارٹی ٹکٹ جاری ہونے کے لیے پارلیمانی بورڈز کے اجلاس بدنظمی کی نذر ہوئے، کراچی میں کھلاڑیوں نے وہ دھما چوکڑی مچائی کہ رہنماؤں کو جانوں کے لالے پڑ گئے، نظریاتی کارکن ایک طرف، نئے شامل ہونے والوں نے میدان مار لیا لیکن اب کارکن احتجاج کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں جب کپتان نے ہی نامزدگیاں نوے فیصد درست قرار دے دیں۔

آوازیں اٹھ  رہی ہیں، احتجاج ہو رہا ہے ، سیاسی کارکن درد سر بن گئے ہیں ۔۔۔ سیاسی جماعتیں کارکنوں کے احتجاج کے باعث تاحال تمام نشستوں پر امیدواروں کا اعلان کرنے میں بھی ناکام ہیں ۔۔۔
تحریک انصاف کا ٹکٹ نہ ملنے پر بڑا الزام سامنے آگیا ۔۔۔ این اے 146 بورے والا میں ٹکٹ سے محروم چوہدری وسیم ظفرنے الزام لگایا ہے کہ ایک پارٹی رہنما نے ٹکٹ کے بدلے چیچہ وطنی میں 130 ایکڑ زمین مانگی تھی ۔۔

لاہور کے آٹھ حلقے بھی پی ٹی آئی کے لئے مسئلہ ہیں ۔۔۔ امیدوار انتظار کی سولی پر لٹکے ہیں ، پی پی 145، پی پی 153، پی پی 163، پی پی 164 ، پی پی 166، پی پی 167 ، پی پی 168 اور پی پی 169 پر فیصلہ نہ ہوسکا، حلقوں میں سروے  کے باوجود پی ٹی آئی ٹکٹ دینے کا فیصلہ نہ کر سکی۔

کراچی سمیت سندھ میں بھی پی ٹی آئی کو اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے ۔۔۔ کراچی میں تحریک انصاف کے رہنماؤں سبحان علی ساحل اور دوا خان صابر نے امتیازی سلوک کا الزام لگا دیا، ساتھ ہی اندر کی کہانی بھی بتا دی اور پارلیمانی بورڈ کے رکن حلیم عادل  پر جانبداری برتنے کا الزام لگاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حلیم عادل ان کے بھائی اور ساتھ آئی ہوئی چند خواتین کو ٹکٹ جاری کردیے گئے ۔۔۔  پیسے کے بل پر ووٹ حاصل کیے گئے، علی زیدی کی سفارش پر عزیر بلوچ کے بزنس پارٹنر کو ٹکٹ جاری کرنے کا دعویٰ بھی کیا گیا۔
رہنماؤں نے الزام عائد کیا کہ علی زیدی نے اپنے ڈرائیور سنجے گنگوانی کو ٹکٹ دے کر ایم پی اے بنانے کی ٹھان لی ۔۔۔ دو سال قبل اسلام اباد سے کراچی آنے والی مرکزی رہنما اسد عمر کی پرسنل سیکریٹری سدرا عمران کو بھی مخصوص نشست سے نوازا گیا، اسی طرح حلیم عادل شیخ کے بھائی نعیم عادل شیخ  اور بیوی دعا بھٹو پر بھی پارٹی مہربان نظر آئی۔
صرف تحریک انصاف ہی نہیں پیپلزپارٹی اور نون لیگ بھی مشکلات سے دوچار ہیں ۔۔۔ نون لیگ میں بھی اختلافات اب کوئی راز نہیں رہے، چوہدری نثار علی خان اور نون لیگ کی قیادت میں اختلافات نے دونوں کو ایک دوسرے کے مدمقابل کھڑا کردیا ہے ۔۔۔ لاہور میں نون لیگی خواتین کارکن بھی سراپا احتجاج نظر آرہی ہیں۔
نون لیگ کو جنوبی پنجاب میں امیدواروں کی کمی کا سامنا ہے جن پر امیدوار کو ٹکٹیں دینے کے بجائے اوپن چھوڑا جا سکتا ہے ، دوہزار تیرہ کے عام انتخابات میں جھنگ کی تمام نشستوں پر کلین سوئپ کرنے والی پاکستان مسلم لیگ نون کو اس بار جھنگ سے کوئی بہتر امیدوار ہی نہ مل سکا، نون لیگ کو چکوال اور سرگودھا میں بھی ٹکٹ دینے میں مشکلات کا سامنا ہے ۔۔۔ صوبے سے پارٹی کے اہم رہنما تحریک انصاف میں شامل ہونے سے ٹکٹ دینے کے لیے پارٹی کے دوسرے اور تیسرے درجے کے رہنماؤں کو منایا جا رہا ہے۔

آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے پنجاب سے کسی حلقے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے، ندیم افضل چن، نذر گوندل، امتیاز صفدر وڑائچ، صمصام بخاری جیسے اہم رہنماؤں کے جانے سے پیپلز پارٹی کو دھچکا لگا ۔
یہ تو تھا تینوں بڑی جماعتوں کو درپیش مشکلات کا ایک عمومی جائزہ جو قبل از انتخابات ہیں ۔۔۔ بعد از انتخابات مشکلات میں کتنا اضافہ ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں نظریاتی کارکنوں کو اہمیت دیں تاکہ جمہوریت کا حسن صرف سیاسی جماعت کی جیت کی صورت میں نظر نہ آئے بلکہ شکست کی صورت میں بھی سلجھے ہوئے نظریاتی کارکن کھلے دل سے شکست تسلیم  کر کے جمہوریت کی گاڑی کو آگے بڑھائیں۔

ٹاپ اسٹوریز