میدان کربلا اور خواتین کا کردار

میدان کربلا اور خواتین کا کردار

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ ”محرم“ کا لفظ تحریم سے بنا ہے اور تحریم کا لفظ حرمت سے نکلا ہے۔ حرمت کے لفظی معنی عظمت اور احترام وغیرہ ہیں۔ اس بنا پر محرم کا مطلب احترام اورعظمت والا ہے۔ چونکہ یہ مہینہ بڑی عظمت اور فضیلت رکھتا ہے اور بڑا مبارک اور لائق احترام ہے اس لئے اسے محرم الحرام کہا جاتا ہے۔

تاریخ اسلام کا ایک اہم ترین اور منحصر بالفرد واقعہ جس نے نام نہاد اسلامی معاشروں کو حقیقت اسلام سے روشناس کرایا اور تاریخ اسلام کو حیات ابدی کے رنگ میں رنگ دیا وہ سید الشہداء امام حسین ؓکا قیام ہے۔ یہ قیام ان مردوں اور عورتوں دونوں کی فداکاریوں اور جانثاریوں پر مشتمل ہے جو پوری دنیا کے مسلمان مرد و زن بلکہ ہر انسان کیلئے نمونہ عمل اور مشعل راہ ہیں۔

عاشور کا واقعہ تمام خصوصیات کا مجموعہ اور مختلف موضوعات پر مشتمل ہے۔ یہ واقعہ صبر، استقامت، شجاعت، پرہیزگاری، عقیدہ، اخلاق اور طرز زندگی سکھاتا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس میں چھوٹے اور بڑے، خواتین اور مرد سب شامل ہیں اور ہر ایک کا اپنا کردار ہے تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عاشورہ کو وجود اور رونق عطا کرنے والے باایمان اور شجاع مجاہدین در حقیقت اپنی ماؤں کے لیے ایک انمول سرمایہ تھے۔

 کربلا کے واقعات کو زندہ و جاوید بنانے میں حضرت زینبؓ، حضرت کلثومؓ، حضرت سکینہ ؓ، اسیران اہل بیت اور کربلا کے دیگر شہدا کی بیویوں اور ماؤں کا اہم کردار رہا ہے۔ کسی بھی تحریک کا پیغام عوام تک پہنچانا بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ کربلا کی تحریک کے پیغام کو عوام تک کربلا کی اسیر خواتین نے پہنچایا ہے۔ جناب زینبؓ کے بے مثال کردار اور قربانیوں سے تاریخ کربلا روشن نظر آتی ہے۔ واقعہ کربلا میں صرف عاشورہ میں ہی نہیں بلکہ انہوں نے شہادت امام حسینؓ کے بعد مختلف مقامات پر اپنا کردارادا کر کے یہ بات ثابت کی ہے کہ حضرت امام حسینؓ کا خواتین اور بچوں کو اپنے ہمراہ لے جانے کا فیصلہ کتنا صائب تھا۔

کربلا کی ان مثالی خواتین نے ملوکیت کی پروردہ قوتوں کے مقابل اپنے معصوم بچوں کو بھوک وپیاس کی شدت سے بلکتا ہوا دیکھنا گوارا کیا، یہاں تک کہ اپنے سہاگوں کو بھی راہ خدا میں قربان ہوتے دیکھا لیکن رسول اللہ ا کے دین کی کشتی انسانیت کو ڈوبنے نہیں دیا۔ واقعہ کربلا کو بے نظیر ولاثانی بنانے میں خواتین کربلا کے بے مثل ایثار سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معرکہ کربلا میں اگر خواتین نہ ہوتیں تو مقصد قربانی سید الشہدا امام حسین ؓ ادھورا ہی رہ جاتا۔ یہی سبب ہے کہ نواسہ رسول ؐملوکیت کے مقابلے میں بیداری اُمت کی تحریک میں اپنے ہمراہ اسلامی معاشرے کی مثالی خواتین کو میدان کربلا میں لائے تھے۔

کربلا میں امام حسینؓ کے انصار و مجاہدین کو ان کی ماؤ ں اور بیویوں نے ہمت اور حوصلہ دیا کہ تم سے زیادہ قیمتی جناب فاطمہ زہراؓ کے فرزند ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے ہوتے ہوئے دشمن ان کو نقصان پہنچا دے، اگر ایسا ہوا تو ہم روز محشر سیدہ زہراؓ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ یہ ان عظیم ماؤں کی ہمت تھی کہ اسلام کی سر بلندی کے لیے ایک نے اپنی عمر بھر کی کمائی جناب علی اکبرؓ کو امام حسینؓ کے لئے عظیم مشن پرقربان کیا تو جناب ربابؓ نے اپنے چھ ماہ کے ننھے شیر خوار کو امام کا مجاہد بنا کر پیش کیا۔ تربیت اگر ایسی ماؤں کی ہو تو پھر فرزند تاریخ میں باقی رہ جانے والے سپوت کیوں نہ بنیں۔

 بی بی زینبؓ وہ ہستی ہیں جن کے خطبوں سے کربلا کی تحریک کو تا قیامت اسی شدید جذبے سے یاد رکھا جائے گا جیسے وہ صدیوں کی بات نہیں کل ہی کا قصہ ہو۔ حضرت زینب ؓ قوت برداشت اور صبر کے اعلیٰ ترین درجے پر فائز تھیں۔ حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد آپ کی تین اہم ذمہ داریوں کا آغاز ہوا تھا جن کو!پ نے کمال کامیابی کے ساتھ نبھایا۔ سب سے بڑی ذمہ داری حضرت سجادؓ کی تیمارداری اور دشمن سے ان کی حفاظت‘ دوسری ذمہ داری ان عورتوں اور بچوں کی حفاظت، جو بیوہ ہو چکی تھیں اور بچے یتیم۔ تیسری ذمہ داری کربلا کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا تھا۔ دم توڑتی انسانیت کو زندہ کرنے کا جو ارادہ حضرت امام حسین ؓ گھر سے لے کر نکلے تھے اس کو انجام تک کردارِ اور گفتار کے ذریعے زینبؓ نے پہنچایا۔ انہی کی سربراہی میں حضرت امام حسین ؓکے اہل حرم نے کوفہ و شام کے گلی کوچے میں اپنے خطبات کے ذریعے یزیدیت کے ظلم کا پردہ چاک کیا اور رہتی دنیا تک ہونے والی کسی بھی سازش کو بروقت بے نقاب کر دیا۔

واقعہ کربلا کا ایک اور اہم کردار امیر المومنین حضرت علیؓ کی بیٹی اُم کلثوم ہیں جنہوں نے دوران اسیری کوفہ و شام کے بازاروں میں خطبے دیے۔انہوں نے اپنے خطبوں میں جہاں کوفیوں اور شامیوں کی امام حسین ؓسے بے وفائی کی مذمت کی وہیں حرم رسول کی طرف نگاہ کرنے سے شدت سے منع بھی کیا۔ آپ کوفہ میں ایک خطبہ کے دوران فرماتی ہیں: ”ترجمہ: اے کوفہ والو کیا تمہیں خدا و رسول سے شر م نہیں آتی کہ تم حرم رسول کی طرف نگاہ کر رہے ہو۔“

حضرت زینب ؓاور حضرت سکینہؓ کے بھی اس طرح کے بہت سارے خطبات اور واقعات پائے جاتے ہیں جن میں انہوں نے اپنے پردہ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔

اس کے علاوہ کاخ یزید میں حضرت زینب ؓ نے جو خطبہ دیا اس میں آپ نے فرمایا ”اے یزید کیا یہ تیری عدالت ہے کہ تیری عورتیں اور کنیزیں پردہ میں رہیں اور رسول زادیاں اسیر بنا کر بغیر چادر شہروں میں پھرائی جائیں اور لوگ اُن کا تماشا کریں۔“

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر خواتین حضرت امام حسین ؓ کا ساتھ نہ دیتیں تو اُمت مسلمہ کی بیداری کی یہ تحریک کبھی کامیاب نہ ہوتی بلکہ یہ کربلا کے میدان میں ہی ختم ہو جاتی۔ ان خواتین نے ہی اس واقعہ کی یاد کو زندہ جاوید بنا دیا۔

جگہ جگہ پر ان محترم خواتین کا احکام خداوندی کی طرف توجہ دلانا اور ان کی مکمل رعایت کرنا آج کی مسلمان خواتین کیلئے واضح درس ہے کہ زمانہ کتنا بھی ترقی کیوں نہ کر جائے حالات کتنے بھی سخت کیوں نہ ہو جائیں سماج کتنا بھی برا کیوں نہ ہو جائے مگر یہ سختیاں اور دشواریاں کربلا کی سختیوں اور مصیبتوں کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔اس لئے ہمیشہ اپنے حوصلوں کا علم بلند رکھیں۔ حق کا ساتھ دیں، باطل کے خلاف ڈٹ کر کھڑی ہوں تو راستے خود بخود سہل ہو جائیں گے۔

 

ٹاپ اسٹوریز