آئی ایم ایف اور اس کی عالمی اہمیت

آئی ایم ایف نے پاکستانی عوام کو مہنگائی کم ہونے کی نوید سنا دی

پاکستان کے مجموعی قرضے اور واجبات 298 کھرب تک جا پہنچے ہیں اور امکان ہے کہ ان حالات میں سی پیک کی مد میں ملنے والے 62 بلین ڈالرز بھی پاکستانی معیشت کو اس حوالے سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے۔ امریکہ نے بھی پاکستان کو معاشی امداد دینے سے انکار کر کے معاملات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔

اس تناظر میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے آئی ایم ایف کے ساتھ اہم مذاکرات جاری ہیں۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں موجود ہے اور معیشت کے حوالے سے اس کی رائے ملک کی معاشی ساکھ اور دیگر امدادی ایجنسیوں اور بیرونی سرمایہ کاری کےاداروں کے اعتبار سے خاص اہمیت رکھتی ہے۔

معاشی ترقی کا اندازہ لگانے والے ادارے آئی ایم ایف کی رائے کو سب سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور عموما اسی کے معاشی تخمینوں کو بنیاد بنا کر کسی ملک کی ریٹنگ کرتے ہیں اور یہ جائزہ لیتے ہیں کہ وہ معاشی اعتبار سے کس قدر خوشحال ہیں اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے وہاں کی صورتحال کس حد تک موافق ہے ۔

اگر آئی ایم ایف کسی حکومت کی امداد پر آمادہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز اس کی ریٹنگز کو بہتر کر دیتا ہے۔ موڈیز اور ایس اینڈ پی (اسٹینڈرڈ اینڈ پوور) کی ریٹنگز کا براہ راست تعلق کیش فلو سے ہوتا ہے۔ کیونکہ اگر کیش فلو زیادہ ہو تو اس کا مطلب زیادہ درآمدی بل ادا کرنے کی صلاحیت ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق اگر کسی ملک کے پاس تین مہینوں کا درآمدی بل ادا کرنے کی رقم ہوتو اس کے بیرونی ادائیگیوں کے نادہندہ ہونے کے امکانات بہت کم ہو جا تے ہیں۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس کے ڈاکٹر محمود خالد کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی پاکستان سے متعلق پیش رفت کا براہ راست تعلق بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کی ریٹنگز سے ہے۔ اس حوالے سے ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں یو ایس ایڈ، ڈی ایف آئی ڈی ، ایکشن اگینسٹ ہنگروغیرہ بھی اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کریں گے۔

چیف میکرو اکنامسٹ وزارت منصوبہ بندی و ترقی ڈاکٹر ظفر الحسن کا اس سلسلے میں کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے ریویومیٹنگ کے دوران ورلڈ بینک اور ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کے نمائندے بھی موجود ہوتے ہیں اور آئی ایم ایف سے معاملات اور اس کی سفارشات اور آرا کی بنیاد پر عموماً عالمی مالیاتی ادارے اور عالمی ڈونر ایجنسیاں اپنی ریٹنگز کا تعین کرتے ہیں۔

اس سارے تناظر میں یہ بات واضح ہے کہ آئی ایم ایف کی ملکی معاشی صورتحال کے حوالے سے رائے بہت اہم ہے مگر اس حقیقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ابھی تک آئی ایم ایف نے جتنے بھی ترقی پذیر ممالک کو امدادی پیکج دیا ہے ان کی معاشی صورتحال بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہوئی ہے جو اس بات کا ایک واضح ثبوت ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کے معاشی مسائل کا حل کسی طرح نہیں ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بین الاقوامی سطح پر آئی ایم ایف کی رائے کی بہت اہمیت ہے تاہم عالمی مالیاتی اداروں کے پیش کردہ تخمینوں کو کسی صورت حتمی نہیں سمجھنا چاہیئے۔ ان اداروں کے اعداد و شمار کی حقیقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2007-8 کے عاالمی مالیاتی بحران کے وقت جب لیمن برادرز کے  اوپر 700 بلین ڈالرز کا قرض تھا اور شام کو یہ کمپنی ڈیفالٹ کر چکی تھی تب صبح تک موڈیز کے مطابق اس کی ریٹنگ اے پلس تھی۔

ٹاپ اسٹوریز