آٹھ اکتوبر: وہ دن جب ہر طرف قیامت کے مناظر تھے

’’پیچھے کردو کیمرہ! یہ عذاب آپ لوگوں کی بے حیائی کی وجہ سے آیا ۔ نہ آپ ٹی وی پر بے حیائی پھیلاتے نہ یہ زلزلے آتے‘‘ایک جہادی نے گڑھی حبیب اللہ میں زلزلے میں جاں بحق درجنوں افراد کی نماز جنازہ ادا کرتے ہوئے مجھے کیمرہ بند کرنے کی ہدایت جاری کی۔

آج سے 13 برس قبل 8 اکتوبر کے زلزلے نے ایک وسیع علاقے میں تباہی مچائی تھی۔ رمضان میں صبح جب زلزلہ آیا تو یوں لگا کہ پشاور تو بس گیا کہ گیا۔  ٹی وی اسکرین پر زلزلے کے جھٹکوں کے ٹکر چل رہے تھے تو اس وقت قطعاََ اندازہ نہیں تھا کہ چند گھنٹے بعد اتنے بڑے پیمانے پر تباہی دیکھوں گا جہاں ملبے تلے لاشیں ہی لاشیں ہوں گی۔ پہلی تباہی جو ٹی وی اسکرین پر دیکھی وہ اسلام آباد کے مارگلہ ٹاور کی عمارت تھی جہاں سے لاشیں نکالی جا رہی تھیں۔ متاثرہ علاقوں سے رابطے منقطع ہو چکے تھے۔

کچھ ہی دیر بعد تمام چینلز مغربی میڈیا کی رپورٹس دکھا رہے تھے جس نے سیٹیلائٹ تصاویر جاری کیں جن میں واضح طور پر خیبر پختونخواہ کا ہزارہ ڈویژن اور آزاد کشمیر نظر آرہا تھا۔ میں نے پہلے صوبائی وزیر اطلاعات آصف اقبال داوٗد زئی سے رابطہ کیا تو جواب نہ ملا۔ اس وقت صوبے میں چھ دینی جماعتوں کے اتحاد ایم ایم اے کی حکومت تھی۔ جماعت اسلامی کے وزیر صحت عنایت اللہ خان سے رابطہ ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ متاثرہ علاقے میں خود حکومت کا رابطہ نہیں ہو پا رہا، اس لئے الخدمت کی ایمبولینس جا رہی ہے، اگر چاہو تو ان کے ساتھ نکل سکتے ہو۔

اگلے لمحے میں کیمرہ مین کے ساتھ ایبٹ آباد کی طرف رواں دواں تھا۔ ہری پور کے بعد ٹوٹی پھوٹی اور کہیں کہیں اکا دکا عمارتیں گری نظر آئیں۔ جب ایبٹ آباد پہنچے تو احساس ہوا کہ جو ہم سوچ رہے تھے تباہی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ ایبٹ آباد شہر میں فٹ پاتھ پر زخمی ڈالے گئے تھے۔ایبٹ آباد میڈیکل کمپلیکس کے احاطہ میں سینکڑوں زخمی پڑے تھے۔ خود اسپتال کی عمارت مخدوش تھی اور ڈر تھا کہ کسی بھی وقت آفٹر شاکس سے گر سکتی ہے۔ وہاں کوئی مانسہرہ، کوئی بٹگرام اور ایبٹ آباد کے گردونواح سے لائے گئے تھے۔ ایک عجیب سا عالم تھا۔

ہم مانسہرہ روانہ ہو گئے۔ گو کہ راستہ 30 کلومیٹر سے بھی کم ہے لیکن ہمیں گھنٹوں لگے۔ مانسہرہ پہنچے تو شہر ویران۔۔۔۔ کوئی حکومتی عمارت سالم نہیں رہی تھی۔ جگہ جگہ خاندان سڑک کنارے بیٹھے تھے۔ گاڑیاں لوگوں سے بھری آ رہی تھیں اور تیزرفتاری سے ایبٹ آباد کی طرف جا رہی تھیں۔ میں نے ایک ڈرائیور کو روکا، اس نے کہا کہ بالاکوٹ شہر صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔ ہم بالاکوٹ روانہ ہوئے ، گڑھی حبیب اللہ پہنچے تو گرد کا آسماں نظر آیا۔ پورے گھڑی حبیب اللہ پر سکوت طاری تھا۔ فضا میں ایک عجیب سی بو تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک گرلز پرائمری اسکول مکمل طور پر زمین میں دھنس چکا ہے جب کہ چھت پر بچیوں کے سرخ دوپٹے، جوتے، کتابیں اور بستے پڑے تھے۔ دکانوں کو تالے لگے ہوئے تھے اور پیچھے سے دکانیں مکمل گر چکی تھیں۔

گھڑی حبیب اللہ جیسے ایک قبرستان بن چکا تھا۔ کچھ جہادی امدادی کارروائیوں میں مصروف تھے۔ سڑک تک چلنے کے قابل نہیں تھی، مواصلات کا نظام درہم برہم تھا۔ گاڑیاں بھاری بھرکم چٹانوں کے نیچے دبی تھیں۔ کچھ گھر ایسے تھے جن کے دروازے تو سلامت تھے مگر پیچھے گھر نام کی کوئی چیز نہیں رہی تھی۔ پوری بستی پر ہو کا سا عالم تھا ۔ہم کوریج کرتے کرتے آگے بڑھ رہے تھے کہ ایک جگہ میدان نظر آیا جہاں درجنوں لاشیں چارپائی کی چادروں میں لپیٹ کر رکھی ہوئی تھیں اور ان کی اجتماعی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی۔ یہ و ہ وقت تھا جب ہمیں کوریج سے روکا گیا کہ ہم ٹی وی والے بے حیائی پھیلا رہے تھے اور رمضان میں اس کی وجہ سے ہم پر اللہ تعالیٰ نے قیامت خیز زلزلہ بھیجا۔

یہ بیانات پورے ایک برس تک ہمارا پیچھا کرتے رہے، ہم کوریج کرتے رہے اور اسی ٹی وی بکسے پر موجود کوریج کے نتیجے میں دنیا بھر سے امداد متاثرین تک پہنچی۔ ہم بالاکوٹ کی طرف چل نکلے۔ بالاکوٹ زلزلہ کے ساتھ وہ پل بھی لے گیا تھا جس سے گزر کر ہم وہاں پہنچتے۔ ہمارے سامنے بالاکوٹ نام کا وہ حسین شہر ایسے غائب تھا کہ جیسے اس نام کا کوئی شہر تھا ہی نہیں۔ آنکھوں کے سامنے دھول ہی دھول تھی اور کچھ دیر بعد تیز بارش شروع ہوئی۔ آٹھ اکتوبر کا سورج کب کا طلوع ہو چکا تھا۔

ٹاپ اسٹوریز