میری کلاس

’میڈم یہ کیا ہے؟ یہ کیسی آواز ہے؟ یہ کیا ہورہا ہے؟ اپنی اسکول ٹیچر کے سوال کا جواب دینے سے پہلے میں نے کہا۔ پہلے کرسی اور بینچ زور زور سے ہلے اور پھر پوری کلاس اور کھڑکیاں دروازے تھر تھر کانپنے لگے۔ میری بات پوری ہونے سے پہلے ہی میڈم اور آگے بیٹھے کچھ کلاس فیلوز باہر کی طرف بھاگنا شروع ہوگئے تھے۔ میں بھی اوروں کے پیچھے باہر کی طرف بھاگا، میرے پیچھے کلاس کی دیوار گر چکی تھی۔۔۔۔۔ ہم بھاگ رہے تھے اور ہم سے آگے بڑھا نہیں جا رہا تھا۔ جیسے زلزلے نے ہمارے پاوٗں اور زمین کے درمیان دراڑ ڈال دی ہو۔اسکول کے بلاک سے باہر پہنچے تو سما عجیب تھا ہر طرف چیخ و پکار، دھول، اور چیخیں دھول کے اندر مل کر ہولناک منظر پیش کر رہی تھیں‘۔

یہ 8 اکتوبر 2005 کی وہ صبح تھی جس کے سورج طلوع ہوتے ہی ہم اسکول پہنچے، صبح کی اسمبلی میں قومی ترانہ اور ’لب پہ آتی ہے دعا بن کہ تمنا میری‘‘ پڑھ کر اپنی کلاسوں میں آئے تھے۔طلبہ کی خاضری کے بعد کلاس کی کارروائی شروع ہی ہوئی تھی کہ ایک عجیب سی آواز کے ساتھ ہی سب کچھ زور زور سے ہلنے لگ گیا اور آواز بھی تیز ہوئی اور جھٹکے بھی۔یہ مجھ سمیت تمام بچوں کے لئے آواز اور منظر نیا تھا۔ہم نے قیامت کی باتیں سنی تھیں ، ایک لمحے کے لئے ہمیں ایسا ہی محسوس ہوا کہ یہ قیامت ہے اور قیامت سے پہلے کے آثار ہیں۔

ہمارے اسکول کی عمارت بری طرح تباہ ہو چکی تھی۔ہم باہر اسکول کے گراوٗنڈ پہنچے تو فضا میں مٹی کے علاوہ ایک چیز تھی وہ تھی لوگوں کی چیخیں جو دلوں کو چیر کر گزر رہی تھیں۔گراوٗنڈ کی باوٗنڈری وال گرنے کی وجہ سے باہر کا منظر سامنے تھا۔کچھ گھر ہمارے سامنے گر رہے تھے۔اس وقت ایسی افراتفری تھی کہ کسی کو کچھ پرواہ نہیں تھی سوائے ذات کے۔۔۔۔ نفسا نفسی کا عالم تھا۔ اسی طرح کا عالم تھا جو ہم نے سن رکھا تھا کہ روز محشر ہر کوئی زارو قطار بھاگے گا ،کسی کو کسی کی پرواہ نہیں ہوگی۔یہ سماں میں دیکھ چکا ہوں۔اس افراتفری میں ایک وہ ہستی تھی جو ایک ماں بیٹی کو ملبے سے نکال کر خود بھی زخمی حالت میں گرتی دیواروں اور گھروں میں سے گزر کر اپنے جگر گوشوں کے پاس اسکول پہنچی، اور اپنے سارے بچوں کو زندہ پا کر گلے سے لگایا اور محفوظ جگہ پر چھوڑ کر واپس ان ماں بیٹی کی طرف چلی گئی ، دس بارہ سالہ بچی تو موقع پر ہی جاں بحق ہو گئی تھی لیکن ماں ابھی سر پر شدید چوٹ کی وجہ سے تڑپ رہی تھی اور وہ اس کا آخری وقت تھا، اسپتال جاتے ہوئے گاڑی میں ہی انتقال کر گئی۔۔

یہ وہ بہادر خاتون میری ماں ہیں۔میں نے اس قیامت خیز دن اور تباہی کے وقت اپنی ماں سے زیادہ بہادر کسی کو نہیں دیکھا۔ اتنی تباہی اور روزہ کی حالت میں اپنی زخمی ٹانگ کے ساتھ انہوں نے ہمت و حوصلے کا مظاہرہ کیا۔

زلزلہ کا دن بہت ہولناک تھا۔شام کو افطاری کے بعد جب 8 اکتوبر کا سورج اپنے ساتھ ہزاروں جانیں لے کر غروب ہوا  تو رات ،دن سے بھی زیادہ قہر زدہ تھی۔ خاندانوں کے خاندان کھلے آسمان کے نیچے۔۔۔ اور پھر تیز بارش۔۔۔ آفٹر شاکس کی وجہ سے بچی کھچھی چھتوں کے نیچے بھی نہیں جا سکتے تھے۔اکا دکا کسی کے پاس خیمے یا کوئی ترپال تھی جس میں عورتوں اور بچوں نے وہاں رات کاٹی۔ میں یہ دل سے سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی زندگی میں زلزلے کے دن اور رات سے زیادہ خوفناک دن رات نہیں دیکھے اور یہ ایک قیامت کی جھلک تھی۔

دوسرے دن یعنی 9 اکتوبر سے ہی ملک کے باقی شہروں سے لوگ امدادی کاروائیوں کے لئے پہنچتے گئے۔پنجاب ،سندھ اور خیبرپختونخوا کے باقی علاقوں سے لوگ اپنے گھروں تک کا سامان لائے اور بڑھ چڑھ کر امداد کی۔حکومت پاکستان اور باقی ممالک کے لوگوں اور حکومتوں نے بھی بڑھ چڑھ کر امدادی کارروائیوں میں مصروف رہے اور متاثرین کی بحالی کے لئے بھی بہت خدمت کی۔پاکستان کے لوگوں کا یہ جذبہ خدمت دیکھ کر دل خوش ہو جاتا تھا۔ہزارہ ریجن ضلع مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ اور آزاد کشمیرکا دارالحکومت مظفرآباد زلزلے کا شدید نشانہ بنے اور پورے کے پورے شہر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔

ہم جب ایک ڈیڑھ ماہ بعد اسکول میں اپنے بستے اور باقی چیزیں لینے گئے تو کلاس میں داخل ہوئے تو پھر سے وہ خوف محسوس ہوا اور وہی منظر آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگا۔کلاس کی دیواریں گری ہوئی تھیں اور کتابیں کاپیاں دھول میں بکھری پڑی تھیں۔ہمیں دوبارہ سے اپنی تعلیم شروع کرنے میں بہت وقت لگا، ایک عرصہ ہم نے خیموں میں تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

’8اکتوبر2005کا زلزلہ تھا تو چند منٹوں کا مگر اپنے ساتھ ہزاروں معذور، ہزاروں جانیں، لاکھوں لوگ بے گھر، اور ہزاروں یتیموں کے ساتھ ساتھ ایک تلخ یادوں کا نہ رکنے والا سلسلہ چھوڑ گیا۔‘

ٹاپ اسٹوریز