اپنے بچوں کی حفاظت کریں

میں اس وقت کراچی کے ایک بڑے مال میں موجود تھی یہاں اس وقت ایک بچی کی گمشدگی کا اعلان کیا جارہا تھا۔ بچی کے والدین پاگلوں کی طرح اسے پورے مال میں ڈھونڈ رہے تھے۔

بچی کی ماں بار بار تکرار کررہی تھی کہ ابھی تو میرے ساتھ ہی تھی‘ کھیلتے کھیلتے جانے کہاں نکل گئی ۔ جب تک میں مال میں رہی اس وقت تک وہ بچی نہیں ملی۔ گھر پہنچ کرجیسے ہی ٹی وی کھولا تو وہاں 26 اگست کو سہراب گوٹھ تھانے کی حدود سے اغوا ہونے والے 13 سالہ ریحان کی نماز جنازہ کی خبر چل رہی تھی۔ یاد رہے سائٹ سپرہائی وے تھانہ کی حدود سے ملنے والی ریحان کی مسخ شدہ نعش 20 سے 25 روز پرانی تھی جس کے گلے میں رسی بندھی ہوئی تھی ۔اپنے 13 سالہ لخت جگر کی تلاش میں اہل خانہ نے ہر ممکن کوشش کی، پولیس میں رپورٹ درج کرانے کے علاوہ اخبارات میں اشتہارات بھی دیئے گئے لیکن ان کی کوششیں بے سود رہیں اور32 دن کی تلاش کا نتیجہ بیٹے کی تشدد شدہ نعش کی صورت میں برآمد ہوا۔

روشنیوں کا شہر کراچی 2018 میں بچوں کے لیے غیرمحفوظ شہر بن کر رہ گیا ہے۔ شہر قائد میں گزشتہ چند ماہ میں بچوں کے اغوا کی وارداتوں میں غیرمعمولی اضافہ ہوا اور اب یہ مسئلہ سنگین شکل اختیار کرچکا ہے۔ موجودہ صورتحال نے والدین کو شدید خوف میں مبتلا کردیا ہے جس کا ثبوت ان دنوں اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے باہر والدین کی بڑی تعداد ہے جو موجودہ صورتحال کے پیش نظر کسی اور پر انحصار کرنے کے بجائے خود اپنے بچوں کو لانے اور لے جانے کے لیے موجود ہوتی ہے۔

پولیس چیف کراچی کے مطابق جنوری سے ستمبر تک 146 بچے مختلف علاقوں سے لاپتا ہوئے جن میں سے 126 بچوں کو ڈھونڈ لیا گیا یا وہ خود گھر واپس آگئے، ان میں سے آٹھ بچوں کو تاوان کے لیے اغوا کیا گیا تھا۔

پولیس نے رواں سال بچوں کے اغوا میں ملوث تین ملزمان کو مقابلے میں ہلاک کیا جب کہ 22 ملزمان کو گرفتار بھی کیا گیا۔ ضلع ویسٹ سے40، ڈسٹرکٹ ایسٹ سے33، ضلع ملیرسے23، کورنگی سے21، سینٹرل سے17 اورساؤتھ سے12 بچے لاپتہ ہوئے۔ گمشدہ بچوں 25بچیاں بھی شامل تھیں۔

کمسن بچوں کے اغوا کے حوالے سے مختلف باتیں گردش کررہی ہیں۔ بچوں کے اغوا کے پیچھے تاوان کا حصول، جنسی زیادتی اور جسم کے مختلف اعضا کا حصول سمیت دیگر مقاصد شامل ہیں۔ وجہ چاہے کچھ بھی ہو لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ماؤں کی گودیں اُجڑ رہی ہیں اور اس ظالمانہ فعل میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جس کی روک تھام کے لیے سندھ حکومت کو سخت ایکشن لینا ہوگا۔

آئی جی سندھ کلیم امام کو اس حساس ترین مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں کرتے ہوئے ذمہ دار افسران کو تعینات کرنا ہوگا۔ بچوں کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانے والدین کو پولیس اہلکاروں کی جانب سے لاپرواہی کا رویہ برداشت کرنا پڑتا ہے جس کی بدترین مثال ریحان کے والدین کی ہے جن کا ماننا ہے کہ اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے ان کے ساتھ سنجیدہ کوششیں کرتے تو شاید آج کا ان کا بیٹا ان کے درمیان زندہ سلامت ہوتا۔

بچو ں کے اغوا کنندگان کے شکنجے سے بچانے میں سب سے اہم کردار والدین کا ہوسکتا ہے کیونکہ باقی اداروں کی کوششوں کا سلسلہ بچوں کی گمشدگی کے بعد درازہوگا جبکہ والدین کی کوششیں ان کے بچوں کو گمشدگی اور خدانخواستہ اس کے بعد ہونے والے حادثات سے بچاسکتی ہیں۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو اپنی نگرانی میں گھر سے باہر لے کر جائیں اوراس بات پر بھی نظر رکھیں کہ آپ کے بچے آپ کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر کھیلنے نہ جائیں، اپنی نجی مصروفیات کو بچوں پر ترجیح نہ دیں اور ان پر کڑی نظر رکھیں۔

یہ بات عام دیکھی گئی ہےکہ بچوں کے اغوا میں جان پہچان والے یا خاندان کے افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ والدین پر لازم ہے کہ بچوں کو تنہا اسکول کالج یا کسی بھی جگہ نہ بھیجیں۔ اگر والدین کے لیے کسی بھی وجہ سے بچوں کو خود اسکول یا ٹیوشن پر لے جانا ممکن نہ ہو تو بچوں کی تربیت اس طرح سے کی جائے کے وہ کسی ناخوش گوار واقعہ سے نمٹنے کے لیے تیار ہوں۔ بچوں کوبتایا جائے کہ وہ اسکول سے واپسی پر گنجان آباد علاقے کا انتخاب کریں اور گھر واپسی پر اردگرد نظر رکھیں تاکہ کسی بھی مشکوک حرکت کو محسوس کرسکیں، ناواقف شخص کے پاس ہرگز نہ جائیں، کوئی بھی غیرمتعلقہ شخص کچھ کھانے پینے کے لیے دے تو ہرگز نہ کھائیں۔ والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کو اس بات کا عادی بنائیں کہ وہ بغیر بتائے گھر سے باہر نہ جائیں اور تنہا گھومنے پھرنے سے پرہیز کریں۔

تعلیمی اداروں میں چھوٹے بچوں کو ان کے والدین کے سپرد کرنے سے قبل اسکول کی جانب سے دیا گیا کارڈ دکھانے کا نظام رائج ہے۔ بڑے بچوں کے حو الے سے بھی ایسا ہی کوئی طریقہ متعین کیا جانا چاہیئے۔

اس کے ساتھ کوئی ایسا نظام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے والدین کو یہ اطلاع موصول ہوجائے کہ ان کا بچہ اسکول سے نکل چکا ہے اور والدین اس بات کی تصدیق کردیں ان کا بچہ اسکول سے بخیریت گھر آچکا ہے۔ بچوں کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کے لیے انتظامیہ سمیت تمام متعلقہ اداروں کو اپنا کرادار ادا کرنا ہوگا تاکہ ہم اپنے بچوں کو محفوظ رکھ سکیں۔

ٹاپ اسٹوریز