امریکی مشیر قومی سلامتی جان بولٹن کا بیان: ایران سے مفاہمت کا اشارہ؟


اسلام آباد: امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی جان بولٹن نے کہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایران پر پابندیاں عائد کرکے اس کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں مگر ساتھ ہی ہم ایسا کوئی قدم اٹھانے کے خواہش مند نہیں ہیں جس سے ہمارے دوست ممالک کو نقصان پہنچے جن کا زیادہ انحصار ایرانی برآمدات پر ہے۔

ہیملٹن سوسائٹی سے خطاب کرتے ہوئے امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی نے کہا کہ حال میں وہ چند ایسے ممالک کا دورہ کرکے آئے ہیں جو ایران سے بطور خاص تیل برآمد کرتے ہیں اور ان کے لیے فوری طور پر امریکی پابندیوں پرعملدرآمد کرنا ممکن نہیں ہے۔

جان بولٹن نے واضح کیا کہ امریکہ ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں سے اپنے دوستوں اور اتحادیوں کو متاثر ہونے سے بچانا چاہتا ہے۔

امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہماری جانب سے عائد کردہ پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی ریال کی قدر و قیمت روز بروز گرتی جارہی ہے جو نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی کوششوں میں کمی یا نرمی نہیں لانی چاہیے۔

عالمی سیاسی مبصرین کے مطابق ایران پر کڑی پابندیوں کے حامی جان بولٹن کی جانب سے یہ خطاب ’مفاہمت‘ کا ’اشارہ‘ محسوس ہورہا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سیکریٹری خزانہ اور سیکریٹری توانائی کے لیے صدارتی میمورنڈم بھیجا ہے جس میں انہوں نے واضح کیا ہے کہ ایرانی تیل اوراس سے تیار ہونے والی مصنوعات کی خریداری کے لیے دیگر ذرائع موجود ہیں۔ انہوں نے صدارتی میمورنڈم میں تجویز دی ہے کہ ایرانی تیل اور اس کی مصنوعات پر انحصار میں کمی لائی جاسکتی ہے۔

امریکی قانون کے مطابق صدر ایسے حکمنامے جاری کرتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے جانب سے آئندہ بھی اس طرح کے  حکمناموں کا اجرا غیرمعمولی بات نہیں ہوگی۔

ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کا اطلاق پانچ نومبر سے ہو گا۔

سابق امریکی صدر بارک اوبامہ کے دور صدارت میں منظور کیے جانے والے قانون کے مطابق امریکہ ان ممالک کے مالیاتی اداروں پر بھی پابندی عائد کرسکتا ہے جو ایران سے اپنی درآمدات میں کمی نہیں لائیں گے۔

ایران سے تیل خریدنے والے بڑے ممالک میں ترکی، چین اوربھارت شامل ہیں۔ ان ممالک نے امریکی اعلان کے باوجود ایران سے اپنی خریداری میں کمی نہیں کی ہے۔ افغانستان اورعراق بھی ایرانی درآمدات پر بڑا انحصار کرتے ہیں۔

امریکی سیکریٹری خارجہ مائک پومپیو کے حالیہ دورہ جنوبی کوریا میں وہاں کی قیادت نے ان سے گزارش کی تھی کہ وہ امریکی پابندیوں سے متاثر ہونے والی کچھ کمپنیوں کو اس ضمن میں رعایت دینے پر غور کریں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران پر پانبدیوں کے اعلان کے بعد یورپی یونین، چین اور ترکی نے بھی ان پابندیوں کو مسترد کر دیا تھا۔

ترکی کے وزیرِ خارجہ میولود چاوش اولو نے کہا تھا کہ ان کا ملک امریکہ کی جانب سے ایران پر عائد کردہ پابندیوں پر عمل نہیں کرے گا۔

ترک اخبار ’روزنامہ جمہوریت‘ سے بات کرتے ہوئے چاوش اولو کا کہنا تھا کہ ایک امریکی وفد نے ترکی کا دورہ کیا ہے جس کے دوران ہم  نے امریکہ پر یہ بات واضح کردی ہے کہ ایران پر پابندیاں درست نہیں ہیں اور ترکی ان پابندیوں کا حصہ نہیں بنے گا۔

انہوں نے کہا کہ ترکی ایران سے تیل درآمد کرتا ہے اور یہ کاروبار عالمی منڈی کے طے شدہ اصولوں پر ہوتا ہے جو غلط نہیں ہیں۔

ترکی کے واضح اعلان سے قبل چین بھی ایران پر امریکی پابندیوں کی مخالفت کرچکا تھا۔

امریکی جریدے ’بلوم برگ‘ کے مطابق امریکہ، چین کو ایران پر عائد کی جانے والی پابندیوں پرقائل کرنے میں ناکام رہا تھا جس کی وجہ سے اس نے ایران سے تیل کی درآمد روکنے سے انکارکردیا تھا۔

بلوم برگ نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ چینی حکام نے امریکی کوشش کے باوجود موجودہ درآمدات کے حجم کو بھی کم کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔

امریکہ کے سیکریٹری خارجہ مائک پومپیو نے جب گزشتہ دنوں بھارت کا دورہ کیا تھا تو انہں نے نئی دہلی کو ایران سے تجارت کرنے کی اجازت دینے پر بھی غور کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی تاہم ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو ایران سے تجارت کا سلسلہ بتدریج ختم کرنا پڑے گا۔

انہوں نے یہ یقین دہانی بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج کے ساتھ ’ٹو پلس ٹو‘ مذاکرات کے دوران کرائی تھی۔

اکتوبر میں غیرملکی خبر رساں ایجنسی نے خبر دی تھی کہ بھارتی حکومت رواں سال نومبر میں ایران سے 90 لاکھ بیرل تیل خریدے گی اور ایرانی آئل کارپوریشن نومبر میں 60 لاکھ بیرل خام تیل بنگلور ریفائنری کو روانہ کرے گی جب کہ تیس لاکھ بیرل تیل پیٹرو کیمیکل لمیٹڈ کو فراہم کرے گی۔

بھارت ایرانی خام تیل کا دوسرا بڑا خریدار ہے، اگر وہ امریکی پابندیوں کے باعث ایران سے تیل کی خریداری روک دے تو اُسے خام تیل مہنگے نرخوں پر متبادل ذرائع سے حاصل کرنا پڑے گا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ گزشتہ دنوں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تھا تو نیویارک میں موجود برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس کے اعلیٰ حکام نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایران پر عائد ہونے والی پابندیوں سے خود کو ’محفوظ‘ رکھنے کے لیے بارٹر سسٹم کا طریقہ کار اختیار کریں گے۔

ادائیگیوں کے اس طریقہ کار سے تیل کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں اور تجارتی اداروں کو یہ سہولت میسر آ جائے گی کہ وہ تیل کی عالمی منڈی جو کہ امریکہ اور ڈالرکے زیراثر ہے، سے باہر نکل کر بھی ایران کے ساتھ کاروبار کر سکیں گے۔

بارٹر سسٹم کے تحت ہوتا یہ ہے کہ ایران سے تیل درآمد کرنے والے ممالک اسے اشیا کی صورت میں ادائیگیاں کیا کریں گے۔ سرد جنگ کے زمانے میں ایسی ہی پابندیوں سے محفوظ رہنے کے لیے روس یہی طریقہ اختیارکرتا رہا ہے۔


متعلقہ خبریں