’کیٹو جینک‘ دور حاضر کی مقبول ترین ڈائٹ


بات جب اسمارٹنس کی ہوتی ہے تو فوری طور پر ذہن ڈائٹ کی جانب جاتا ہے۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ اسمارٹنس یاصحت مند زندگی کا راز ورزش کے ساتھ متوازن غذا میں پوشیدہ ہے۔ دنیا میں اس وقت بے شمار ڈائٹ پلان مستعمل ہیں، کیٹو جینک ڈائٹ ان میں ایک اہم اضافہ ہے۔

ہماری عام غذا کے بنیادی اجزاء پروٹین، لحمیات اور چربی پر مشتمل ہوتے ہیں جن کی مقدار پر نظر رکھنا نہایت ضروری ہوتا ہے ورنہ افزائش اور جراثیم کے خلاف مدافعتی طاقت کے حصول میں پریشانی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

”کیٹو جینک ڈائٹ “ کو ماہرین نے انسانی جسم کو درکار توانائی کی مقدار کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا ہے، یہی وجہ اس کے حیران کن نتائج کی بھی ہے۔ کیٹوجینک ایک ایسی ڈائٹ ہے جس میں قدرتی اجزاء مثلاً مچھلی، انڈے، پنیر اور خشک میوہ جات سے چربی کی زیادہ، پروٹین نہایت کم اور لحمیات کی قلیل ترین مقدار لی جاتی ہے۔ اسے کیٹوجینک کا نام اس لئے دیا گیا ہے کہ اس ڈائٹ میں جسم لحمیات کے بجائے چربی سے توانائی حاصل کرتا ہے۔

کیٹوڈائٹ کے نام سے مشہور یہ غذا پاکستان میں تقریباً ایک سال قبل متعارف ہوئی اور مختصر عرصے میں ہی بے حد مقبول ہوچکی ہے۔ کیٹو جینک ڈائٹ میں 70 فیصد چکنائی، 25 فیصد پروٹین اور 5 فیصد کاربوہائیڈریٹ ہوتے ہیں۔کیٹون توانائی کے چھوٹے چھوٹے مالیکیول ہوتے ہیں جو چکنائی کی مدد سے جگر میں پیدا ہوتے ہیں اور توانائی کا متبادل ذریعہ ہیں، ان کیٹون کی وجہ سے اسے ”کیٹو ڈائٹ“ کہا جاتا ہے۔ جسم کیٹون سے توانائی حاصل کرکے پروٹین اور انتہائی کم مقدار میں کاربوہائیڈریٹ کےساتھ بھی اچھا جسمانی میٹابولزم قائم رکھ سکتا ہے، یعنی اس خوراک کا استعمال کرتے ہوئے جسم توانائی کی تقریباً تمام ضروریات چکنائی سے پوری کرلیتا ہے۔ جب جسم میں کیٹوسس کا پراسیس جاری ہوتا ہے تو جسم کی فالتو چربی توانائی میں تبدیل ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں اگر کاربوہائیڈریٹ کم استعمال کئے جائیں تب بھی توانائی کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ چربی توانائی میں تحلیل ہوکر موٹاپے میں کمی کا باعث بنتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کیٹوجینک غذائیں مصنوعی رنگوں اور ملاوٹ سے پاک قدرتی غذاﺅں کو کہا جاتا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کم کاربو ہائیڈریٹ والی کیٹوجینک ڈائٹ یادداشت اور لمبی زندگی کی ضمانت ہے، بک انسٹی ٹیوٹ آف ایجنگ نوواٹو کے ماہرین ایرک ورڈن اور جان نیومن کی جدید تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کیٹوجینک نہ صرف حافظے کی بہتری بلکہ طویل زندگی میں بھی اپنا اہم کردار ادا کرتی ہے۔

علاوہ ازیں یہ دل کے افعال کو درست رکھنے، گلوکوز کو اعتدال پر رکھنے اور دماغی صحت پر اچھے اثرات مرتب کرنے میں بھی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔

ماہرین کے مطابق کیٹو غذائیں جسم میں بیٹا ہائیڈروکسی بیوٹریٹ کی مقدار بڑھاتی ہیں جس سے دماغی سرگرمی اور کام کرنے کی صلاحیت بڑھتی جبکہ بی ایچ بی بڑھاپے کو دور رکھنے کے ساتھ اہم اعضا اور ٹشو کو بھی درست حالت میں رکھتی ہے۔

کیٹوجینک غذا میں لحمیات اور پروٹین زیادہ جبکہ کاربوہائیڈریٹس کم کھائے جاتے ہیں، ان غذاﺅں میں گھاس چرنے والے مویشیوں کا گوشت، گھی، تیل، زیتون کا تیل، چکنائی والی مچھلی، انڈے، مغزیات، پھلیوں اور خشک میوﺅں کے علاوہ زمین کے اُوپر اُگنے والی سبزیاں اور دیگر اشیا شامل ہیں۔

کیٹو جینک سے وزن کم کرنے والی ایک خاتون کے مطابق ”میں نے اس غذا کےساتھ ہر طرح کے میٹھے ‘ کاربوہائیڈریٹ والی غذائیں مثلاً روٹی‘چاول اور آلو وغیرہ کا استعمال بہت کم کردیا۔ میں نے اس غذا کو بہت مفید پایا۔

خاتون کے مطابق میں صبح آٹھ بجے ایک کھانے کے چمچے سیب کے سرکے میں دو کھانے کے چمچے سادہ پانی ملاکر پیتی تھی، سوا آٹھ بجے چار گلاس پانی، سوا 9 بجے دو انڈوں کا آملیٹ اور تھوڑا سا پنیر، 11 بجے ایک پیالی گرین ٹی، دوپہر ایک بجے سلاد اور سبزی، سہہ پہر چار بجے اسٹرابیری، بادام اور ایک پیالی گرین ٹی، سات بجے مکھن، مرغی، قیمہ شملہ مرچ، پالک پنیر، بھنڈی اور کریلے میں سے انتخاب جبکہ رات آٹھ بجے لیموں والی گرین ٹی استعمال کرتی رہی۔

خاتون کا کہنا تھا کہ وہ تمام کھانے دیسی گھی یا مکھن میں پکاتی تھیں اور دن بھر میں 12 سے 20 گلاس پانی ضرور پیتی تھیں۔

ہر ڈائٹ کی طرح کیٹوجینک ڈائٹ اختیار کرنے والوں کو بھی کچھ ناپسندیدہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مثال کے طور پر سانس میں بدبو کا پیدا ہونا، جس کی بنیادی وجہ نظام ہاضمہ کا چربی یا چکنائی کو ہضم کرکے توانائی میں تبدیل کرنا ہے تاہم کچھ عرصے بعد یہ معمول پر آجاتا ہے۔ اسی طرح اس ڈائٹ میں لحمیات کی نہایت قلیل مقدار شامل ہونے کی وجہ سے تھکاوٹ کا احساس بھی طاری ہوسکتا ہے۔ پروٹین کی قدرے کم مقدار کی وجہ سے جسم کے پٹھوں میں درد اور کھنچاﺅ رہتا ہے ، اسی طرح نظام ہاضمہ بھی خراب رہ سکتا ہے تاہم یہ تمام منفی اثرات کچھ دنوں بعد زائل ہوجاتے ہیں۔

یاد رہے کہ حاملہ خواتین اور دیگر حساس امراض میں مبتلا افراد کو کسی بھی نوعیت کی غذا یا دوا کھانے سے قبل ڈاکٹر سے مشورہ ضرور کرلینا چاہئے۔


متعلقہ خبریں