نقیب اللہ کیس، مقدمات دوسری عدالت منتقل کرنے کی درخواست منظور

فوٹو: فیس بک


کراچی:  انسداد دہشت گردی (اے ٹی سی)کی عدالت نمبر دو سے راؤ انوار کے دونوں مقدمات کی دوسری عدالت منتقلی سے متعلق درخواست منظور کر لی گئی ہے، سماعت کرنے والی عدالت کا فیصلہ کچھ دیر بعد کیا جائے گا۔

سندھ ہائی کورٹ میں نقیب اللہ محسود کے والد کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت ہوئی، دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل بیرسٹر فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اے ٹی سی نمبر 2 عدالت پر اعتماد نہیں رہا، اے ٹی سی عدالت نمبر 2 نے جانبداری اور تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے راؤ انوار و دیگر ملزمان کو غیر معمولی رعایتیں دیں۔

درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ہمارے اعتراض کے باوجود ملزمان کو ضمانتیں دے دی گئیں، اے ٹی سی عدالت نے اپنے ہی فیصلے میں ایک دن میں 2 بار ترمیم کیں۔

بیرسٹر فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ راؤ انوار اس وقت بھی معطل ہے، انہوں نے کہا کہ خصوصی عدالت نے قرار دیا کہ راؤ انوار جائے واردات پر موجود نہیں تھے جس پر چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ کیا ماتحت عدالت ایسی بنیادی آبزرویشن دے سکتی ہے؟

بیرسٹر ایان میمن نے جواب دیا کہ ماتحت عدالت نے قانون کے مطابق اپنا اختیار استمعال کیا، مدعی ماتحت عدالت کے ضمانت فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرچکا ہے۔

دوران سماعت دیگر ملزمان کے وکلا کا کہنا تھا کہ کیس کسی بھی عدالت میں چلے، ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

واضح رہے کہ نقیب اللہ کے والد انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر دو پر عدم اعتماد کا اظہار کر چکے ہیں انہوں نے اے ٹی سی ٹو میں زیر سماعت مقدمات روک کر دوسری عدالت منتقل کرنے سے متعلق سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

نقیب اللہ قتل کیس پس منظر

نقیب اللہ کو رواں سال 13 جنوری کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا تھا، نسیم اللہ عرف نقیب اللہ کی نعش کی شناخت 17 جنوری کو ہوئی تھی، مبینہ پولیس مقابلے کے بعد سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے نقیب اللہ  کو تحریک طالبان کا کمانڈر ظاہر کیا تھا۔

نقیب اللہ کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا میں پولیس مقابلے کے خلاف سول سوسائٹی نے آواز اٹھائی اور پولیس کے اقدام  کو ماورائے عدالت قتل قرار دیا۔

سوشل میڈیا میں اٹھنے والی آوازوں کے نتیجے میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے نوٹس لیا، انہوں نے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی ثنا اللہ عباسی کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بنائی جس نے تحقیقات کے بعد نقیب اللہ محسود کو بے قصوراوراس کی ہلاکت کو ماورائے عدالت قتل کا نتیجہ قرار دیا۔

کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں 20 جنوری کو راؤ انوار اور ان کی ٹیم کو معطل کردیا گیا۔

سپریم کورٹ نے بھی راؤ انوار کے قتل کا ازخود نوٹس لیا جس کے بعد راؤانوار اپنی پولیس ٹیم کے ہمراہ  روپوش ہو گئے،  سابق ایس ایس پی سپریم کورٹ کی طلبی کے باوجود عدالت عظمیٰ میں پیش نہیں ہوئے، سندھ پولیس بھی عدالتی احکامات کے باوجود ان کی گرفتاری میں یکسر ناکام ثابت ہوئی۔

دو ماہ تک مفرور رہنے کے بعد 21 مارچ کو راؤ انوار خود سپریم کورٹ میں پیش ہوئے تو انہیں عدالتی حکم  پر عدالت  کے احاطے سے گرفتار کر کے کراچی پہنچا یا گیا۔

کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے  10 جولائی کو  محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے راؤ انوار کی ضمانت منظور کر لی تھی۔


متعلقہ خبریں