بلوچستان کو قحط زدہ قرار دیا جائے، ثناءاللہ بلوچ 


کوئٹہ: ممبر صوبائی اسمبلی ثناء اللہ بلوچ نے مطالبہ کیا ہے کہ عالمی اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں بلوچستان کے تمام اضلاع کو قحط زدہ قرار دیا جائے کیونکہ اس وقت صوبے کی حالت انتہائی خراب ہے۔

ڈپٹی اسپیکر بابر موسی خیل کی صدارت میں ہونے والے بلوچستان اسمبلی اجلاس میں سابق پارلیمنٹیرین ثناء اللہ بلوچ نے کہا کہ صوبے کی 66 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اور خاص طور پر خاران، نوشکی اور دالبندین کو قحط زدہ قرار دیا جائے کیونکہ وہاں صورتحال زیادہ خراب ہے۔

انہوں نے بتایا کہ قحط زدہ علاقوں میں ذریعہ معاش، علاقوں میں زراعت اور مالداری تباہ ہوچکی ہے۔ قلت آب اور خشک سالی کا شکارعلاقوں میں سولر ٹیوب ویل لگائے جائیں اورمتاثرہ علاقوں کے لیے پیکج کا اعلان کیا جائے۔

صوبہ بلوچستان کو بجلی کی فراہمی کی مناسبت سے بات کرتے ہوئے ثناء اللہ بلوچ نے کہا کہ صوبے کم سے کم 18 گھنٹے بجلی فراہم کی جائے۔ صوبے بھر کے 612 فیڈرز میں سے 600 فیڈز میں 24 گھنٹے بجلی نہیں ہوتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام(بی آئی ایس پی) کے 88 ارب روپے میں سے صرف تین  ارب روپے بلوچستان کو دیئے گئے۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے تمام زرعی قرضوں کو معاف کیا جائے اور زمینداروں کے بجلی کے تمام واجبات معاف کیے جائیں۔ حکومت اور اپوزیشن کو مل کر قحط سالی کے معاملے پر وفاق سے بات کرنا ہوگی.

دوسری جانب پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے ایم پی اے نصر اللہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں پانی کی صورتحال کے پیش نظر ابھی سے ڈیم کی پلاننگ کی جا رہی ہے۔ بلوچستان خشک سالی کا شکار ہے لیکن بلوچستان میں نہ ڈیموں کے لیے پلاننگ کی گئی نہ ہی متبادل ذرائع پر کام کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں زراعت کا انحصار ٹیوب ویل پر ہے۔ پانی کی سطح میں کمی کی وجہ سے ٹیوب ویل بھی ناکام ہورہے ہیں۔

ممبر صوبائی اسمبلی ظہور بلیدی نے اجلاس میں کہا کہ برج عزیز خان ڈیم کے لیے ایک ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ڈیم پر کام کا آغاز وفاقی حکومت سے منظوری کے بعد کیا گیا۔

اجلاس میں شریک جان جمالی کا کہنا ہے کہ پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جو وفاق سے صوبے کے مسائل پر بات کرے۔ ارسا معاہدے کے تحت سندھ سے پانی نہیں مل رہا ہے۔ پانی کی کمی سے زرعی زمین بنجر ہوتی جا رہی ہیں۔


متعلقہ خبریں