شریف خاندان کی ضمانت معطل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں، چیف جسٹس


اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان نے کہا ہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں شریف خاندان کی ضمانت کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ بہتر تھا کہ فیصلہ سپریم کورٹ خود کرتی، ٹرائل کورٹ میں بھیج کر غلطی کی۔

شریف خاندان کی ضمانت منسوخی کے خلاف قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل کی سماعت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

نیب کے وکیل اکرم قریشی نے ضمانت منسوخی کے حوالے سے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئنی درخواست سنتے وقت مقدمے کے حقائق پر بات کی ہے اور مخصوص مقدمات میں عدالتیں مقدمے کے حقائق پر بات کرسکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی ملزم کی زندگی خطرے میں ہو یا پھر طویل عرصے تک اپیل مقرر نہ ہو تو حقائق پر بات ہوسکتی ہے اور ایسے مخصوص مقدمات (ہارڈشپ) کہتے ہیں جب کہ سنگین بیماری لاحق ہو تو سزا معطل بھی ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر کو مخطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے تحریری نکات پہلے دے چکے ہیں اور اُن نکات کو مد نظر رکھ کر ہی فریقین کو نوٹس جاری کیا گیا تھا۔

جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ سزا معطلی میں شواہد کو نہیں دیکھا جاتا جب کہ نیب مقدمات میں عام طور پر ضمانت نہیں ہوتی ہے۔ اس لیے ہائی کورٹ نے میرٹ اور شواہد پر ہی فیصلہ دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا فیصلہ نہیں دیکھا ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ پہلے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کا مؤقف سن لیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا لیکن ہم نے کہا ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیا جائے۔ کیا ضمانت دینے کا فیصلہ ایسے ہوتا ہے ؟ ہائی کورٹ نے مقدمے کے تمام حقائق پر بات کی ہے۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ نے کس طرح کے الفاظ استعمال کیے ہیں ذرا دیکھیں۔ کیا ہائی کورٹ نے ضمانت کی درخواست پر حتمی فیصلہ دے دیا ؟ میرے خیال میں ہمارے پاس ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا پاکستان کی عدالتوں کی کوئی ایسی مثال دے سکتے ہیں جس میں نیب کورٹ فیصلے کے نقائص بیان کیے گئے ہوں جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسا کیا ہے۔ ہائیکورٹ نے انتہائی گہرائی سے حقائق کا جائزہ لیا ہے لیکن ہمیں بتائیں نیب عدالت کے فیصلے میں کیا نقائص ہیں؟

خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ مقدمہ آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جو بات پوچھیں اس کا جواب دیں۔ یہ ٹرائل کورٹ نہیں بلکہ سپریم کورٹ ہے اور آپ اپنے ضبط کو برقرار رکھیں۔

عدالت نے وکلاء کو تحریری طور پر معروضات پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے خواجہ حارث کو مخاطب کیا کہ آپ کی جانب سے سات مؤقف بدلے گئے ہیں۔ کبھی تو آپ کہتے ہیں کہ قطری کا خط آیا تو کبھی کوئی اور مؤقف اپنایا گیا جب کہ سپریم کورٹ کو خود فیصلہ کرنا چاہے تھا ٹرائل کورٹ میں نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔

شریف خاندن کے وکیل خواجہ حارث نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو آرام کرلینا چاہیے تھا، مقدمے کی سماعت ملتوی کر کے کسی اور دن مقرر کر دی جائے تاہم کامیاب اینجوپلاسٹی پر آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مقدمہ ایک فرد کا نہیں بلکہ عدالتی نظام میں بہتری کا معاملہ ہے جب کہ ڈاکٹر جنرل ریٹائرڈ کیانی نے مجھے عدالت جانے کی اجازت نہیں دی تھی بہر حال یہ اہم مقدمہ ہے اس لیے میں آگیا ہوں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے نیب کی اپیل کی سماعت 12 نومبر تک ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں