بھنگ کی دکانیں کھلوانے کے لیے وکیل کا احتجاج


میرپورخاص: سندھ کے شہر میں ایک وکیل نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ صوبے میں ’بھنگ‘ کی دکانیں کھولنے کی اجازت دی جائے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق میرپورخاص پریس کلب کے باہر بدھ کی صبح ایڈووکیٹ امان اللہ سومرو ڈنڈے اور کونڈے کے ساتھ پہنچے، جہاں انہوں نے بھنگ گھوٹ کر تیار کی اور سبز رنگ کا محلول گلاس پی گئے۔

امان اللہ سومرو شہر میں اسٹامپ وینڈر کا کام کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھنگ منشیات نہیں بلکہ جڑی بوٹی ہے اور اس میں کیمیکل بھی شامل نہیں ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’پہلے بھنگ 40 روپے کلو ملتی تھی لیکن اب یہ 12 سو روپے کلو بھی نہیں ملتی ہے۔‘

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق امان اللہ سومرو نے بھنگ کی دکانیں کھولنے کی درخواست سپریم کورٹ میں بھی دائر کی تھی۔ انہوں نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالت نے کہا کہ یہ ان کا دائرہ اختیار نہیں ہے اور انہیں سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔

امان اللہ سومرو کہتے ہیں کہ سندھ ہائی کورٹ میں یہ درخواست دی ہے جہاں وہ گزشتہ آٹھ ماہ سے زیر سماعت ہے۔

بھنگ سندھ کے پہاڑی علاقوں کے علاوہ کچے میں کاشت کی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا پودا ہے جس کی کئی اقسام ہیں۔ استعمال سے قبل اس کے پتوں کو سکھایا جاتا ہے۔ استعمال کے لیے اس کو کونڈے میں ڈال کر گھوٹا جاتا ہے۔ ساتھ میں بادام، مصری، خشش اور الائچی وغیرہ کے علاوہ دودھ یا پانی ملا کر ململ کے کپڑے میں چھانا جاتا ہے۔

بی بی سی کےمطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ  بھنگ کے استعمال میں جدت آئی ہے۔ اب یہ پکوڑوں اور دال کے پاپڑوں میں بھی استعمال کی جاتی ہے، یہ پاپڑ کراچی میں بھی دستیاب ہوتے ہیں۔

امریکہ، جرمنی، اٹلی اور نیدرلینڈ نے اس کو بطور دوا استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق سندھ میں 1976 تک بھنگ کی فروخت اور استعمال کو قانونی حیثیت حاصل تھی لیکن بعد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے شراب کے ساتھ بھنگ پر بھی پابندی عائد کر دی۔


متعلقہ خبریں