ادبی دنیا کے ممتاز شاعر جون ایلیا کو بچھڑے 16 برس بیت گئے



اسلام آباد: آج اُردو کے ممتاز شاعر جون ایلیا کی 16ویں برسی منائی جا رہی ہے۔

جون ایلیا کا اصل نام سید جون اصغر تھا اور وہ 14 دسمبر 1931ء کو بھارت میں اترپردیش کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد علامہ شفیق حسن ایلیا اردو، فارسی، عربی اور عبرانی زبان کے عالم تھے جبکہ اردو کے نامور دانشور سید محمد تقی اور اردو کے معروف شاعر رئیس امروہوی ان کے بڑے بھائی تھے۔

اردو کے اسی ادبی ماحول کے باعث جون ایلیا کی تربیت بھی انہی نقوش پر ہوئی۔

جون ایلیا کیمونسٹ خیالات کے مالک تھے ان کی اسی شخصیت کی بنا پر وہ ہندوستان کی تقسیم کے سخت خلاف تھے، لیکن تقسیم کے وقت پاکستان ہجرت کرنے کے بعد انہوں نے تقسیم ہند کو ایک سمجھوتہ کے طور پر قبول کر لیا۔

جون ایلیا نے 1957ء میں پاکستان ہجرت کی اور کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ جلد ہی وہ شہر کے ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئے، ان کی شاعری ان کےوسیع و پیچیدہ مطالعہ کی عادات کا واضح ثبوت تھی۔ جس کی وجہ سے انہیں جلد ہی پذیرائی نصیب ہوئی۔

کتنی وحشت ہے درمیان ہجوم
جس کو دیکھو گیا ہوا ہے کہیں

جون ایلیا کا شاعری کہنے کا انداز گزرے شاعروں سے نہایت منفرد تھا، جون ایلیا کی شخصیت کو معاشرے، روایات اور معیارات کی زنجیروں سے کھلی عداوت و بغاوت سے عبارت کیا جاتا ہے۔

میں بھی بہت عجیب ہوں ، اتنا عجیب ہوں کہ بس

خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں

بغاوت کے اس مادے کے باعث جون ایلیا کی شاعری میں فلسفیانہ شک و سوالات، خدا سے تکرار، معاشرے سے عداوت، خود پر ناراض ہو جانا اور ناراض رہنا، عشق و محبت میں ناکامی و یاس کے ساتھ ساتھ غصہ و بیزاری جیسے عناصر کو شامل کر دیا۔

کیا بتاؤں کہ مر نہیں پاتا
جیتے جی جب سے مر گیا ہوں میں

جون ایک انتھک مصنف تھے، لیکن انھیں اپنا تحریری کام شائع کروانے پر کبھی بھی راضی نہ کیا جا سکا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ “شاید” اس وقت شائع ہوا جب ان کی عمر 60 سال کی تھی۔

ان کی شاعری کا دوسرا مجموعہ “یعنی” ان کی وفات کے بعد 2003ء میں شائع ہوا اور تیسرا مجموعہ “گمان” 2004ء میں شائع ہوا۔ “لیکن” 2006ء، “گویا” 2008ء مختصر مضامین کا مجموعہ ’فرنود‘ 2012ء اس کے علاوہ راموز 2016ء بھی منظر عام پر آچکا ہے.

جون ایلیا کا علم  فلسفہ، منطق، اسلامی تاریخ، اسلامی صوفی روایات، اسلامی سائنس، مغربی ادب اور واقعۂ کربلا پر انسائکلوپیڈیا کی طرح وسیع تھا اور اس علم کا نچوڑ انہوں نے اپنی شاعری میں بھی داخل کیا۔

قافلہ رہ گیا اک دشت بالا میں پیاسا
جن کی میراث تھی کوثر انہیں پانی نا ملا

حکومت پاکستان نے ممتاز شاعر جون ایلیا کو ان کی ادبی دنیا کی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2000ء میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نواز رکھا ہے۔

اردو کی دنیا کے منفرد اور ممتاز شاعر جون ایلیا طویل علالت کے بعد 8 نومبر، 2002ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔ تھے۔ وہ کراچی میں سخی حسن کے قبرستان میں سپرد خاک ہیں۔


متعلقہ خبریں