اسلام آباد: معروف بزنس مین اور عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے آتے ہی فیصلے کرنا شروع کر دیے جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی کم ہونے لگا ہے۔
ہم نیوز کے پروگرام ’ایجنڈا پاکستان‘ میں میزبان عامر ضیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگست میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو کر 600 ملین ڈالر پر آ گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شروع میں آئی ایم ایف سے قرض لینے کے معاملے میں پی ٹی آئی کے مختلف وزرا نے مختلف بیانات دیے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں کنفیوژن پھیل گئی۔
عارف حبیب کا کہنا تھا کہ ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کر دی ہیں، روپے کی قدر میں کمی واقع ہو گئی ہے، اسی طرح مہنگائی بھی بڑھ گئی ہے، اب آئی ایم ایف کی کوئی بات نہیں ماننی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دو مسئلے ہیں، پہلا مسئلہ یہ ہے کہ نیب کے خوف سے کوئی بیوروکریٹ کام کرنے کو تیار نہیں ہے، دوسرا مسئلہ کرپشن ہے جس کی وجہ سے بھی ہر معاملے میں دیر ہو جاتی ہے، تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ دولت کمانے کو پاکستان میں گناہ سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے پاس اپنی برآمدات بڑھانے کے لیے زراعت کے شعبے میں بہت سے مواقع ہیں، ٹیکسٹائل میں برآمد ات بڑھائی جا سکتی ہیں، اسی طرح چاول اور چینی ہم اپنی ضرورت سے زیادہ پیدا کرتے ہیں، انہیں بھی برآمد کیا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی حکومت کے گھروں کی تعمیر کے منصوبے کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اگر حکومت زمین مفت فراہم کر دے تو 50 لاکھ گھروں کی تعمیر ممکن ہو جائے گی۔
پروگرام میں شریک ڈاکٹر امجد وحید کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے برآمدات بڑھانے کی طرف توجہ دی ہے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے سے بھی برآمدات کو محفوظ رکھا ہے، دوسری بات یہ ہے کہ موجودہ وزیرخزانہ کاروباری حضرات سے مسسلسل رابطے میں ہیں، اسحاق ڈار سرمایہ کاروں سے دور رہتے تھے۔
انہوں نے بتایا کہ چھ برس پہلے ہماری 25 ارب ڈالر کی برآمدات تھیں اور بنگلہ دیش کی بھی اتنی ہی تھیں، اب بنگلہ دیش کی 40 ارب ڈالر ہو چکی ہیں جبکہ ہماری برآمددات گر کر 23 ارب ڈالر ہو گئی ہیں۔
اسٹاک مارکیٹ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ آج ہمیں معیشت کا بڑا سائز چاہیے، چھوٹی کمپنیوں کا کوئی فائدہ نہیں، اگر یہ آپس میں مل کر بڑی کمپنی بنائیں تو زیادہ فائدہ ہو گا۔
ڈاکٹر امجد وحید نے کہا کہ پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر کوئی راستہ نہیں، سعودی عرب اور چین سے امداد ملنے کے بعد بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیب کے لوگوں کو کاروبار کا پتہ نہیں ہے، نیب میں بھی ایسے لوگ ہونے چاہئیں جنہیں کاروبار کی سمجھ ہو۔
اصلاحات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے تو ٹیکس بیس کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے، دوسرے سرکاری اداروں کی نجکاری کرنا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا 800 ارب روپیہ خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں پر خرچ ہو رہا ہے جو پاکستان میں صحت اور تعلیم کے مشترکہ بجٹ کے برابر ہے۔